- Get link
- X
- Other Apps
- Get link
- X
- Other Apps
کسی جنگل میں ایک بھیڑیا رہتا تھا- ایک دن وہ بھیڑیا ایک شکاری کے جال میں پھنس گیا- بہت زور لگایا مگر جال سے نکل نہ پایا، بلکہ مذید اُلجھ گیا- اِسی تگ و دو میں جال کی ڈوریاں اُس کے جسم میں گڑ گئیں اور جسم سےخون رسنے لگا- اتنے میں قریب سے ایک چوہے کا گزر ہوا- بھیڑیا اُسے دیکھتے ہی انتہائی لجاجت سےبولا: "بھائی چوہے! میری مدد کرو، میں اس جال میں بری طرح پھنس گیا ہوں، تم مہربانی کرو اور اپنے تیز دانتوں سے اس جال کو کاٹ دو تا کہ میں آزاد ہو جاؤں۔" چوہا بولا: "نہ بابا نہ! اگر میں نے تمہیں آزاد ی دلا دی تو تم سب سے پہلے مجھے ہی ہڑپ کر جاؤ گے۔" بھیڑیا بولا: "تم ٹھیک کہتے ہو ۔ میری فطرت کچھ ایسی ہی ہے، مگر تمہارے اس احسان کے بدلے میں وعدہ کرتا ہوں کہ نہ صرف میں اپنے آپ پر قابو رکھوں بلکہ جب تمہیں کسی اور درندے نے تنگ کیا تو میں تمہاری مدد کروں گا-" قصہ مختصر کافی دیر تک منت سماجت کرنے کے بعد بھیڑیے نے چوہے کو راضی کر ہی لیا اور یوں چوہے نے اس جال کو اپنے تیز دانتوں سے کتر ڈالا۔
سبق:
- عادت کو تبدیل کیا جا سکتا ہے مگر فطرت پر قابو پانا ممکن نہیں- سانپ کو لاکھ دودھ پلاؤ مگر وہ کاٹےگا ضرور!
- بے جوڑ دوستی اکثر اوقات دیرپا نہیں ہوتی اور کبھی نہ کبھی نقصان پہنچاتی ہے-
- کسی پر کیے گئے احسان کی قیمت کبھی نہیں وصول کرنی چاہیے- اس سے نیکی بھی ضائع ہوتی ہے اور انسان کا وقار بھی مٹی میں مل جاتا ہے-
- طاقتور کے مزاج اور وعدے کا کوئی بھروسا نہیں- وہ جب چاہے اسے بدل دیتا ہے-
- انسان کو ہمیشہ اپنی اوقات میں رہنا چاہیے اور اللہ کے بعد صرف اپنے ہی قوت بازو پر بھروسا کرنا چاہیے-
- زرا سی طاقت ملتے ہی کم ظرف کی طرح بے جا اچھل کود اور اکڑفوں نفرت کو پھیلانے کا سبب بنتی ہے جس سے آخر کارنقصان ہی ہوتا ہے-
Comments
Post a Comment