Subscribe Us

اللہ تعالی سے رابطے کا نمبر سر

 عرب ممالک میں رہنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کو عربی زبان آ جاتی ہے۔ اور عربی زبان آ جائے تو کسی حد تک قرآن سمجھ آنا شروع ہو جاتا ہے۔ قرآن تو آپ ترجمے کے ذریعے بھی پڑھ سکتے ہیں لیکن لہجے آپ ترجمے سے نہیں سجھ سکتے۔ لہجے آپ کو عربیوں سے سمجھ آئیں گے۔

جیسا کہ میرے سٹور میں جب کوئی بچے اپنے والدین کے ساتھ آئیں۔ والدین شاپنگ کر کے بل پے کر کے جانے لگیں۔ بچہ جو کہ مختلف شیلف کے سامنے کھڑا ہے۔ میں نے یہ لینا ہے میں نے وہ لینا ہے۔

باپ پہلے پیار سے کہتا ہے

“ تعال یا ولد

( آ جاو بیٹا)

بیٹا پھر بھی کھلونوں والی شیلف یا چاکلیٹ سیکشن میں کھویا ہوا ہے اور اس کا بس نہیں چل رہا وہ سب اٹھا لے۔

پھر باپ سختی سے کہتا ہے

“حی”

“دوڑ کر آو( چلو )”


محسوس  کیا آپ نے کہ جب تھوڑا سختی سے کہنا ہو لہجہ تھوڑا حتمی کرنا ہو تو الفاظ بدل گئے

۔ تعال کی جگہ حی آ گیا۔اور تعال کے بعد پھر گنجائش  ہے۔حی کے بعد تو گنجائش  ہی نہیں۔ حی کے بعد انکار یا ضد کی پھر یا تو بچہ پٹے گا یا پھر اس کا باپ اسے چھوڑ کر نکل جائے گا۔ اور گاڑی میں بیٹھ کر انتظار کرے گا کہ آنا تو اس نے میرے پاس ہی ہے۔


اسی طرح سارا دن ہم دنیا کمانے میں لگے ہوتے ہیں۔ یہ لیں ۔ وہ کمائیں۔ یہ دیکھیں۔ وہ دیکھیں

پانچ بار جب حی الصلوہ، حی الفلاح کی آواز کان میں پڑتی ہے تو عربی سے نا بلد لوگوں کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ یہ کون سا لہجہ اور کس قدر سختی سے بلایا جا رہا ہے۔ اور اس حی کی ندا کے انکار کی صورت کیا کیا نتائج بھگتنا پڑ سکتے 

ہیں۔ انکار کی صورت یا تو دنیا سے ہی پٹائی کا سلسلہ شروع ہو جانا ہے یا خالق نے ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دینا ہے کہ آنا تو اس نے میرے پاس ہی ہے

انا الینا ایابھم

بے شک ہماری طرف انھوں نے لوٹنا ہے

ثم انا علینا حسابھم

پھر بے شک ہمارے ذمے ہے ان کا حساب لینا

۔

سورہ الغاشیہ

آیات نمبر پچیس ، چھبیس




 جس طرح کسی بندے سے بات چیت کرنی ہو تو اس سے بات کرنے کے لیے ہمیں اس کا مطلوبہ نمبر درکار ہوتا ہے ہم اس کا مطلوبہ نمبر ڈائیل کر رہے ہیں اپنے موبائل سے یا پھر تو پھر ہم بات کرتے ہیں لیکن آپ نے سے رابطے کا نمبر ہمیں چودہ سو سال پہلے ہی دیا تھا لیکن ہم یہ سمجھتے نہیں ہیں پہلے جو مسلمان تھے جب بھی ان کو کسی بھی چیز کی ضرورت ہوتی تھی تو وہ دو نفل نماز ادا کرتے تو اللہ تعالی سے وہ چیز کھا لیتے تو کہتے ہیں ایک ارب کا سوداگر تھا ایک عرب کا تاجدار آیا تھا جو جا رہا تھا راستے میں اس رشتے میں اس کی اس کا جو گدھا ہے وہ مرگیا تو بہت سارے دوستوں نے اس سے کہا کہ یار آپ میرے  سواری پر لاد کے لے جاؤ لیکن  وہ نہیں مانا 


کہتے ہیں اس نے وضو کیا اور دو نفل نماز ادا کرکے اس کے بعد سب نے دیکھا کہ اس کا جو سواری ہے وہ پھر دوبارہ زندہ ہو گیا اس میں کتنی حقیقت ہے یہ تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن ہاں یہ تو میں نے بھی دیکھا ہے کہ عرب میں آج بھی جو پرانے لوگ ہیں اگر ان کا کوئی کام نہیں ہو رہا ہاں تو وہ وہ دو نفل نماز نماز پڑھتے ہیں وضو کر کے وہ دو نفل نماز پڑھتے ہیں اور اللہ تعالی سے اپنا وہ کام کروا لیتے ہیں یہ میں نے خود بعض میں یہ خود دیکھا ہے کیونکہ ایک بندہ تھا اس کا ایک کام نہیں ہو رہا تھا بڑی  مشکل میں تھا اس کی عمر  تقریبا 60 سے 70 سال کی درمیان تھا

یہاں پر کام بتانا اس کا لازمی مطلب نہیں ہے لیکن آپ کو یہ بتا دو کہ جیسے ہی اس بندے نے نے29 فل ادا کیے تو اس کا کام ہو گیا جو سارے دن سے کام نہیں ہوا اس نے دو نفل ادا کیے تو بھائی کا کام ہو گیا یا وہ وہ لوگ آج بھی عقیدہ ہے ہمارے مسلمانوں کا عقیدہ یہی ہونا چاہیے ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ ہم نے ملاقات کرنی ہے تو اللہ تعالی کا مطلوبہ نمبر جو ہے وہ یہی نماز ہے اسی لیے تو ہمیں ہر ہر روز پانچ برس بعد مسجد سے یہی آواز آتی ہے مجھے والوں کے لیے کے باہر تو نہیں سمجھتے تے وہ تو ایسے ہیں جیسے بھینس کے آگے بین بجانا یا پھر بھینس کے آگے گئے انگلش میں باتیں کرنا پنجابی میں کرنا اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تو ہماری یہ دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو جو اس نے ہمیں عمر دی ہے فائدہ اٹھانے کا موقع دے ہمیں توفیق دے ہم اس سے فائدہ اٹھا سکیں جو اس نے دیا ہے تو ہم میں سے بہت سارے ایسے ساتھی ہیں جو چھوٹی عمر میں ہی ہمارا ساتھ چھوڑ کر چلے گئے لیکن آج بھی ہم جی رہے ہیں لیکن ہم اس طرف توجہ نہیں دیتے کیا ہم ہمارا کوئی زور ہے کہ ہم زندہ رہ سکے اگر وہ نہ چاہے تو سوچ لیں

Post a Comment

0 Comments