Subscribe Us

مجھے 500 کم دے دینا ,,لیکن میرے ساتھ برا نہ کرنا پلیز

وہ شکل سے شریف گھر کی بیٹی لگ رہی تھی میں پاس گیا میرے قریب ہو کر بولی چلو گے صاحب میں نے پوچھا کتبے پیسے لو گی کہنے لگی آپ کتنے دیں گے میں نے اس کی نیلی سی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا وہ بے بس سی تھی میں نے بولا آو کار میں بیٹھو وہ ڈر رہی تھی کہنے لگی کتنے آدمی ہو میں نے کہا ڈرو نہیں میں اکیلا ہی ہوں وہ خاموش بیٹھی رہی پھر کہنے لگی آپ مجھے سگریٹ سے اذیت تو نہیں دو گے نا میں مسکرایا بلکل بھی نہیں پھر اس نے ایک لمبی سانس بھری آپ میرے ساتھ کوئی ظلم تو نہیں کریں گے نا آپ چاہے مجھے 500 کم دے دینا 


,,لیکن میرے ساتھ برا نہ کرنا پلیز وہ بہت خوبصورت تھی معصومیت اس کی باتوں سے ٹپک رہی تھی پھر بھی خدا جانے وہ کیوں جسم بیچنے پہ مجبور تھی وہ نہیں جانتی تھی میں کون ہوں میں نے پوچھا کھانا کھایا ہے کہنے لگی نہیں میں ہوٹل کے سامنے کار رکی ہوٹل والا مجھے جانتا تھا اس نے جلدی سے کھانا پیک کیا مجھے دیا میں کار میں بیٹھ گیا آ کر میں اپنے آفس کی طرف چل دیا چوکیدار نے دروازہ کھولا میں کار پارک کی رات کے 11 بج رہے تھے سب اپنااپنا کام کر رہے تھے وہ مسلسل میری طرف دیکھے جا رہی تھی میں نے کھانا پلیٹ میں ڈالا اسے کہا ہاتھ دھو لو وہ کہنے لگی میں نے نہیں کھانا میں نے پیار سے کہا ڈرو نہیں کچھ نہیں ہو گا وہ ہاتھ دھو کر آئی میرے سامنے کرسی پہ بیٹھ گئی اور کھانا کھانے لگی جب کھانا کھا لیا تو کچھ کھانا بچ گیا کہنے لگی یہ میں گھر لے جا سکتی ہوں میں مسکرایا بلکل
 V بھی نہیں وہ چپ ہو گئی برقع اتارنے لگی میں نے کہا رک جائیں میرے پاس آ کر بیٹھ جائیں وہ حیران تھی میری آنکھوں میں دیکھ کر بولی جلدی سے اہنا کام کریں مجھے واپس چھوڑ آئیں میں نے کہا نہیں پوچھوں گا کیوں کرتی ہو ایسا کیوں بیچتی ہو جسم بس اتنا کہوں گا چھوڑ سکتی ہو کیا یہ سب وہ میرے چہرے کی طرف دیکھنے لگی آپ پاگل لگ رہیں مجھے میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا ہاں پاگل ہی ہوں میں سب پاگل ہی سمجھتے ہیں مجھے وہ کہنے لگی اگر کچھ کرنا نہیں ہے تو مجھے واپس چھوڑ کر آو میں نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا پھر پرس سے 30k نکالے اس کے ہاتھ پہ رکھے وہ حیران تھی کہنے لگی میں نے نہیں لینے آپ کیوں دے رہے ہیں یہ پیسے مجھے میں نے اس کے چہرے پہ ایک تھکن محسوس کی تھی وہ اپنے آنسو روکے بیٹھی تھی بار بار کہہ رہی تھی مجھے بس واپس چھوڑ کر آو مجھے ڈر لگ رہا ہے میں نے اسے یقین دلایا ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے اچھا بتاو نا بہت درد دیا نا زندگی نے یہ سننا تھا اس کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں جیسے کوئی قیامت گر گئی ہو اس پہ میں سمجھ چکا تھا 1111 کوئی بہت بڑا درد لیئے گھوم رہی ہے دروازہ کھولا کانپتی آواز میں بولی مجھے چھوڑ کر آو واپس میں نے اسے بیٹھنے کا کہا بتایا میرا نام نعمان راجپوت ہے ڈرو نہیں خود کو محفوظ سمجھو اسے جب یقین ہو گیا پریشانی والی کوئی بات نہیں تو بتانے لگی شوہر مر گیا تین بیٹیاں ہیں سسرال والوں نے نکال دیا ماں باپ فوت ہو چکے ہیں بھائی کوئی ہے نہیں ماموں کے گھر آئی ماموں کے بیٹے نے میرے ساتھ زیادتی کی میں نے جب مامی کو بتایا تو سب نے مجھے غلط کہا مجھے دھکے دے کر گھر سے نکال دیا دور کے رشتہ دار نے ایک بڈھے سے میری شادی کروائی اس کے بھی بچے تھے اس کے بچوں نے مجھے بہت ذلیل کیا پھر وہ شوہر بھی فوت ہو گیا بیٹیوں کو لیئے در بدر لیئے بھٹکنے لگی نہ چھت تھی نہ روٹی تھی بھوک افلاس تھی سڑک پہ کھڑی تھی ایک صاحب آئے کہنے لگے ایک گھنٹے کے 5 ہزار دوں گا نہ چاہتے ہوئے ماں کی ممتا حالات کی ستائی ہوئی کیا کرتی آخر چل دی اب ہر روز جسم بیچتی ہوں کرائے گا گھر لیا ہے بیٹیوں کو اکیلا چھوڑ کر آتی ہوں کیا کروں بہت بار سوچا خود کشی کر لوں لیکن بیٹیوں کو دیکھ کر ہمت نہیں ہوتی وہ رو رہی تھی میں زمانے کی بے حسی محسوس کر رہا تھا اس کے سر پہ ہاتھ رکھا اس کہا نعمان تمہارا بھائی ہے 111111 آج سے تم اپنی بیٹیوں کو لو اور میرے آفس کے اوپر والے ایک روم میں رہو وہ یقین نہیں کر پا رہی تھی کار میں بٹھایا اس کے گھر پہنچا بیٹیاں سوئی ہوئی تھیں بہت پیاری تھیں گود میں اٹھایا دل کو سکون ملا وہ مسلسل روئے جا رہی تھی مجھے کہنے لگی آپ فرشتے ہیں آپ کون ہیں میں اسے اپنے آفس لے آیا وہ دعائیں دینے لگی جھولی اٹھا کر نہ جانے کتنی دعائیں دیتی رہی میں نے اسے کہا جا کر سو جائیں اپنے آفس روم میں گیا میرے سامنے سے وہ چہرہ گزرا جو ایک لڑکی اپنے شوہر سے جھگڑا رہی تھی اسے کہہ رہی تھی مجھے طلاق دو تم کو میری قدر ہی نہیں ہے وہ اپنا گھر جلا رہی تھی اپنی بے وقوفی کی وجہ سے وہ بیچاری کیا جانے زمانے کی تلخیاں کیا ہوتی ہیں زمانے کا ڈسنا کیا ہوتا ہے میں بتانا چاہتا تھا اپنا گھر جان بوجھ کر اجاڑنے والی لڑکیوں کو طلاقیں لینا آسان ہے اس کے بعد جینا موت ہے کبھی ساس کا رونا کبھی نند کا سیاپا کبھی جھٹانی سے لڑائی یہ ہر گھر کی بات ہے اس کا ہرگز مطلب طلاق لینا یا گھر اجاڑنا نہیں ہے کم عمری میں ہی میرے سر کے بال سفید ہو گئے ہیں ہزاروں آنکھوں کے آنسو دیکھ کر اپنے گھروں کو آباد رکھو خدا کی قسم ایک وقت آتا کے نا بھائی حال پوچھتے ہیں نا سگی بہنیں سب وقت کے ساتھ چہرے کے نقاب بدل لیتے ہیں نعمان ہر جگہ ہر کسی کو تھامنے کے لیئے کھڑا نہیں ملے گا ہاں میری قلم شاید کسی کو بربادی سے پہلے بچا لے ہمسفر کیسا بھی ہے وہ تمہاری ڈھال ہے شادی کے بعد سگے بھائی سے خرچہ لینا بھی بھیگ مانگنے جیسا لگتا ہے میری باتیں وہ عورت سمجھ سکتی ہیں جس پہ ایسا کچھ گزرا یے ہمسفر جیسا بھی ہے 11111

 وہ تمہارا لباس ہے یاد رکھنا زمانے کے لیئے تم صرف گوشت کا ایک ٹکڑا ہو وہ زمانے گزرے مدت ہوئی جب رشتوں کا پاس رکھا جاتا تھا اب رشتوں سے کھیلا جا سکتا ہے ہوس پوری کی جا سکتی ہے پھر پھینک دیا جاتا ہے ہاں قسمت میں لکھا ہم بدل نہیں سکتے لیکن قسمت خود لکھ بھی سکتے ہیں صبر برداشت اور جھک کر نہ جانے کتنی عورتیں صرف اس لیئے گھر اجاڑ لیتی ہیں کے اس کا شوہر اس کو ٹائم نہیں دیتا ہاں یہ شکوہ کرنا درست ہے لیکن کیا گارنٹی ہے اس کے بعد زندگی میں آنے والا اس سے بھی زیادہ برا ہو صرف ایک زندگی ہے اس کو محبت پیار سمجھداری کے ساتھ گزار لو میں اس معاشرے کو معاشرہ نہیں کہتا بلکہ بدبودار سماج کہتا ہوں یہاں جگہ جگہ پہ لٹیرے کھڑے ہیں عزتوں کے خواہشوں کے بھرم کے بھروسے کے اعتبار کے… بس آخر پہ ایک بات کہوں گا اگر تم کو پیٹ بھرنے کے لیئے چاردیواری سے باہر نہیں جانا پڑ رہا اگر تم کو جسم نہیں بیچنا پڑ رہا اگر تمہارے سر پہ چادر ہے اگر لوگ تمہارا سودا نہیں کرتے اگر لوگ تم کو وحشیہ نہیں کہتے اگر تمہارا دامن پاکیزہ ہے اگر تم رات کو محفوظ پناہ گاہ میں سوتی ہو تو نہ کرنا برباد اپنا آشیانہ ورنہ روند دی جاو گی نوچ لی جاو گی جو طلاق لیئے بیٹھی ہیں پوچھو ان سے وہ سوچ رہی ہوتی ہیں نہ جانے کتنے بچوں کے باپ کی ہمسفر بنوں گی نہ جانے وہ کیسا سلوک کرے گا اور پھر ساری زندگی یہ طعنہ سنتے گزر جاتی ہے اتنی ہی اچھی ہوتی تو طلاق کیوں لیتی خیر وہ لڑکی الحمداللہ محفوظ ہے لیکن وہ روتی ہے زمانے کی بے حسی پہ اور جانتے ہو کسی عورت کی بربادی میں کہیں نہ کہیں مرد ہوتا ہے محبت کر کے چھوڑنے والا دعویدار ہو یا نکاح کر کے طلاق دینے والا بدبخت عورت خدا کی قسم میرے معاشرے کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ایک قیدی ہے کبھی باپ کی پگڑی پہ لٹ گئی تو کبھی ساس کے زہر آلود لہجے پہ کبھی شوہر کی انا پہ خاک ہو گئی تو کبھی اولاد کی وجہ سے مرد اگر سمجھ جائیں میری اس تحریر کو تو شاید میرا معاشرہ بدل جائے ہاں کچھ عورتیں ہوتی ہیں بازارو جن کو جتنی بھی عزت دے دو وہ عزت کی چادر سے زیادہ بازار کی رونق بننا پسند کرتی ہیں پھر ایسی بدبخت عورتیں ایک بدبودار معاشرے کو جنم دیتی ہیں

Post a Comment

0 Comments