Subscribe Us

کنیز یا لونڈی دراصل کیا ہے؟ نکاح کے بغیر اسے رکھنا کیسا..

کنیز یا لونڈی دراصل کیا ہے؟





نکاح کے بغیر اسے رکھنا کیسا..

(اسلامی دلائل کے ساتھ مکمل بحث)


آج کے دور میں ہم قرآن و سنت کو پڑھے اور دیکھے بغیر خود سے فتوے لگانے میں مشغول ہیں. اور اسی بات کو درست سمجھتے ہیں جو ہمیں اچھی لگتی ہے. کنیز یا لونڈی کے بارے میں ہم میں سے اکثریت غلط فہمی کا شکار ہے. جسے ہر کسی کو دور کر لینا چاہیئے.

سب سے پہلے کنیز کا تعارف ضروری ہے. کنیز یا لونڈی اس عورت کو کہتے ہیں جو جنگ کے بعد قیدی کے طور پر پکڑی جائے. وہ اب مال غنیمت کے طور پر اس فاتح لشکر کی ملکیت ہے. اس طرح کنیز اور غلام بھی مال غنیمت کی تقسیم کے لحاظ سے بانٹ لیئے جائیں. 

اس بات کو مدنظر رکھیں کہ کسی مرد اور عورت (خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم) کو زبردستی اغواء کر کے غلام یا کنیز بنانا گناہ اور ظلم ہے. اسلام نے اس سے منع فرمایا ہے. کنیز یا غلام صرف وہ ہی ہے جو اوپر بتایا جا چکا. اس کے علاہ اگر کوئی کسی سے کنیز یا غلام رقم دے کر خریدتا ہے تو وہ اب نئے مالک کی غلامی میں ہے.

اب بات کرتے ہیں نکاح اور ازدواجی تعلقات پر. ایک مرد کو چار آزاد عورتوں سے شادی کی اجازت ہے. لیکن کنیزوں کی تعداد مخصوص نہیں. اس کے پاس جتنی بھی کنیزیں ہیں وہ ان سب سے ازدواجی تعلقات بغیر نکاح کیئے رکھ سکتا ہے.

جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:


وَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تُقْسِطُواْ فِي الْيَتَامَى فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ اَدْنَى اَلاَّ تَعُولُواْ○ (سورہ النساہ؛ آیت 3)

ترجمہ:

"اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین یا چارچار. مگر یہ اجازت انصاف کی شرط پہ ہے پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم زائد بیویوں میں عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے نکاح کرو. یا وہ کنیزیں رکھ لو جو شرعاً تمہاری ملکیت میں آئی ہوں یہ بات اس سے قریب ترہے کہ تم سے کسی پر ظلم نہ ہو".


اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ چار شادیوں کی اجازت اسی صورت میں ہے اگر تم ان سب میں انصاف رکھ سکو ورنہ ایک شادی کرو اور اگر تمہارے پاس کنیز ہے تو پھر ظلم اور ان میں انصاف کا اندیشہ نہیں ہے.

 

کنیز کے جائز ہونے کے حوالے سے ایک اور آیت مبارکہ..


يَا اَيُّھَا النَّبِيُّ اِنَّا اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ اُجُورَھُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا اَفَاءَ اللَّہُ عَلَيْكَ ( سورہ احزاب؛ آیت 50) (ابتدائی حصہ)


ترجمہ:

اے نبی! بیشک ہم نے آپ کے لئے آپ کی وہ بیویاں حلال فرما دی ہیں جن کا مہَر آپ نے ادا فرما دیا ہے اور ان عورتوں کو جو بھی احکامِ الٰہی کے مطابق آپ کی مملوک ہیں، جو اللہ نے آپ کو مالِ غنیمت میں عطا فرمائی ہیں.


8 ہجری کے اواخر میں غزوۂ اوطاس ہوا. بہت سی عورتیں پکڑی ہوئی آئیں. ان میں جو شادی شدہ عورتیں تھیں ان کے معاملے میں مسلمان اختلاف کا شکار ہوئے یہ جائز ہیں یا نہیں. اس پر یہ آیت نازل ہوئی:

وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ اِلاَّ مَا مَلَكَت (سورہ النساء؛ آیت 24)

ترجمہ:

اور شوہر والی عورتیں بھی تم پرحرام ہیں سوائے ان کافروں کی قیدی عورتوں کے جو تمہاری ملکیت میں آجائیں.


اس سے ثابت ہوا کہ وہ کنیز بھی جائز ہے جس کی قید ہونے سے پہلے شادی ہو چکی ہو.


ایک جگہ مومنوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوا.


وَالَّذِينَ ھُمْ لِفُرُوجِھِمْ حَافِظُونَ○ اِلَّا عَلَى اَزْوَاجِھِمْ اوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُھُمْ فَاِنَّھُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ○ فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْعٰدُوۡنَ ۚ○

(سورہ المومنون؛ آیات 5،6،7)


"اور جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں. سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بیشک احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے ان پر کوئی ملامت نہیں. تو جو ان دو کے سوا کچھ اور چاہے وہی حد سے بڑھنے والے ہیں".


اس سے ثابت ہوا کہ مسلمان کے لیئے کنیز اور بیوی کے علاوہ تمام عورتیں ناجائز ہیں.

مذکورہ بالا تمام آیات سے کنیز کے ساتھ بغیر نکاح کے ازدواجی تعلقات کا جائز ہونا ثابت ہے. اب ہم بات کرتے ہیں کنیز اور اس کے نکاح کی.

اگر کوئی مسلمان کسی کنیز سے شادی کرنا چاہے تو اس کے لیئے کنیز کا مسلمان ہونا ضروری ہے. اسے آزاد کر کے نکاح کر سکتا ہے. یہ اگر وہ چاہے تو اپنی کنیز کا نکاح کہیں اور کروا دے. یہ اس کے لیئے ثواب کا کام ہے.

جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے.

وَاَنكِحُوا الْاَيَامَى مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَاِمَائِكُمْ اِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِھِمُ اللَّہُ مِن فَضْلِہِ وَاللَّہُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ○ (سورہ النور؛ آیت 32)


"اور تم اپنے مردوں اور عورتوں میں سے ان کا نکاح کر دیا کرو جو عمرِ نکاح کے باوجود بغیر ازدواجی زندگی کےرہ رہے ہوں اور اپنے باصلاحیت غلاموں اور باندیوں کا بھی نکاح کر دیا کرو، اگر وہ محتاج ہوں گے تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا، اور اللہ بڑی وسعت والا بڑے علم والا ہے".


اب بات کرنی چاہیئے مسلمان حکمرانوں کی جنہوں نے کنیزوں سے حرم بھر لیئے اور سب کچھ بھول کر عیاشی میں گم ہو گئے. سب حکمران ایک جیسے نہیں تھے. سلطان صلاح الدین ایوبی اور نور الدین زنگی جیسے کئی حکمران ہیں جنہوں نے حرم رکھا ہی نہیں اور صرف ایک شادی کی. عثمانی سلاطین میں حرم کا نظام موجود تھا. ہم یہ نہیں کہ سکتے یہ گناہ کا کام تھا. عثمانی سلاطین پھر بھی عیش و عشرت کا شکار نہیں ہوئے. سوائے چند ایک کے. ان میں اس حوالے سے قوانین موجود تھے.

کچھ مغل حکمران بھی عیش کا شکار رہے. جو کہ زوال کی ایک وجہ ہے. ان کو روز نئی کنیز کی طلب ہوتی. لیکن اگر ہر کام کو اعتدال میں رہ کر کیا جائے تو نقصانات سے بچا جا سکتا ہے.

الغرض اس پوسٹ کا مقصد لوگوں کو یہ بتانا تھا کہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ مسلم حکمران کنیزیں رکھ کر گناہ کرتے ہیں اور اس طرح ان کی اولاد بھی نا جائز ہے. حالانکہ ایسا نہیں ہے. یہ اب ان کا ذاتی فعل ہے کہ وہ عیش میں پڑیں یا حدود میں رہیں. (واللہ اعلم)

آج کے دور میں چونکہ غلام اور کنیز کا تصور ختم ہو چکا ہے تو ہمارے پاس صرف نکاح ہی جائز اور واحد راستہ ہے. 

Post a Comment

0 Comments