کامیاب تجارت کے اصول اور طریقہ کار کار

 کامیاب لوگ کون ؟؟؟؟؟؟؟


تفسیر القرآن الکریم - سورۃ نمبر 24 النور

آیت نمبر 37


ترجمہ:

وہ مرد جنھیں اللہ کے ذکر سے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے سے نہ کوئی تجارت غافل کرتی ہے اور نہ کوئی خرید و فروخت، وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی۔


تفسیر:

رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيْعٌ ۔۔ : ”


 رِجَالٌ“ پر تنوین تفخیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ” بڑی شان والے مرد “ کیا گیا ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ ” تجارت “ کے بعد ” بیع “ کو ذکر کرنے کی کیا ضرورت ہے، جب کہ بیع بھی تجارت ہی ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ تجارت ایک وسیع عمل ہے، جس میں مختلف اشیاء خریدنے کے لیے سفر کرنا، انھیں مناسب مقام سے مناسب وقت پر مناسب قیمت کے ساتھ خریدنا، انھیں محفوظ کرکے رکھنا، پھر بیچنے کے لیے مناسب موقع کی تلاش میں رہنا،


 اس کے لیے دکان پر بیٹھنا، گاہک کا انتظار کرنا اور مناسب وقت پر فروخت کردینا سب کچھ شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمانے کے بعد کہ


 ان عظیم مردوں کو اللہ کے ذکر اور اقامت صلاۃ اور ادائے زکوٰۃ سے تجارت میں درکار کوئی عمل غافل نہیں کرتا،


 تجارت کے تمام کاموں میں سے خاص اس کام کا ذکر فرمایا جو تجارت کی ساری محنت کا نتیجہ ہے اور وہ ہے بیع، یہ لفظ بیچنے اور خریدنے دونوں پر بولا جاتا ہے، یعنی اللہ کے ان بندوں کو تجارت میں درکار کوئی کام اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتا، 



حتیٰ کہ خریدو فروخت کا عمل، جو تجارت کی ساری محنت کا نتیجہ ہے اور جس سے نفع حاصل ہوتا ہے، وہ بھی انھیں اللہ کے ذکر سے نہیں روکتا۔ 


اذان ہونے پر خواہ کوئی چیز بک رہی ہو یا خریدی جا رہی ہو اور خواہ کتنا نفع حاصل ہو رہا ہو وہ دنیا کے اس نفع کو لات مار کر اللہ کے گھر میں حاضر ہوجاتے ہیں۔ 


عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کے ذکر سے مراد دل میں اسے یاد رکھنا اور زبان سے اس کا ذکر دونوں مراد ہیں، یعنی وہ تجارت کے کسی موقع پر حتیٰ کہ خریدو فروخت کے وقت بھی اللہ تعالیٰ کو نہیں بھولتے، نہ کسی سودے میں ایسا کام کرتے ہیں جس سے اس نے منع فرما دیا ہے اور ان کی زبان پر ہر وقت اللہ کا ذکر ہی رہتا ہے۔ وہ بات بات پر الحمد للہ، سبحان اللہ، ماشاء اللہ وغیرہ کہتے ہیں


 اور خاموشی کی حالت میں بھی ان کی زبان اللہ کے ذکر سے تر رہتی ہے، وہ اس حکم پر کاربند رہتے ہیں :


 ( لَا یَزَالُ لِسَانُکَ رَطْبًا مِّنْ ذِکْرِ اللّٰہِ ) [ ترمذي، الدعوات، باب ما جاء في فضل الذکر : ٣٣٧٥ ] ”


 تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہے۔ “ اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم :


 ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِيْرًا) [ الأحزاب : ٤١ ] ” 


اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ کو یاد کرو، بہت یاد کرنا۔ “

وَاِقَام الصَّلٰوةِ وَاِيْتَاۗءِ الزَّكٰوةِ :


 نماز کی اقامت میں اسے وقت پر ادا کرنا اور اس کے تمام ارکان کو صحیح طریقے سے ادا کرنا سب کچھ شامل ہے، یعنی کوئی تجارت یا خریدو فروخت اللہ کے ذکر اور اقامت صلاۃ اور ادائے زکوٰۃ میں ان کے لیے غفلت کا باعث نہیں بنتی۔


3 اس آیت سے معلوم ہوا کہ اسلام کی تعلیم یہ نہیں ہے کہ دنیا کا کاروبار چھوڑ کر اللہ اللہ کرتے رہو، یہ تو رہبانیت ہے جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے نہیں دی۔ اللہ کے تمام جلیل القدر پیغمبر محنت کے ساتھ کمائی کرتے تھے، آدم (علیہ السلام) مویشی پالنے، کھیتی باڑی، صنعت و حرفت اور ضرورت کے سارے کام خود کرتے تھے


۔ زکریا (علیہ السلام) نجار تھے، داؤد (علیہ السلام) زرہیں بناتے تھے۔ تمام پیغمبروں نے بکریاں چرائی ہیں، 


ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نبوت سے پہلے اجرت پر بکریاں چرائی ہیں، تجارت بھی کی ہے، آخر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کا رزق آپ کے نیزے کے سائے تلے رکھ دیا تھا۔


 صحابہ کرام (رض) کا بھی یہی حال تھا، کوئی مویشی پالتا تھا، کوئی کاشت کار تھا، کوئی صنعت کار، کوئی تجارت کرتا تھا، کوئی مزدوری، البتہ جہاد میں سبھی شامل تھے، 



جو رزق کا سب سے باعزت ذریعہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایتائے زکوٰۃ (زکوٰۃ دینے) کے حکم میں بھی کسب حلال کی ترغیب ہے کہ مال نہیں کمائے گا تو زکوٰۃ کس سے دے گا۔ 


اسی لیے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صدقے کی اپیل کرتے تو بعض صحابہ بوجھ اٹھا کر اور بعض رات بھر ڈول کھینچ کر جو کچھ کماتے پیش کردیتے۔

Comments