- Get link
- X
- Other Apps
- Get link
- X
- Other Apps
یاسمینہ علی کیسے اس انڈسٹری کا حصہ بنی؟ پہلی
بار دُنیا کو بتا دیا
نیویارک(نیوز ڈیسک) گندی فلموں میں کام کرنے
والی افغانستان کی واحد اداکارہ یاسمینہ علی کیسے اس شرمناک انڈسٹری کی طرف راغب ہوئی؟ پہلی بار اس نے اپنے
۔
طالبان کی طرف سے عائد مختلف قدغنوں کے باعث عورتوں کی مجموعی ملازمت میں مردوں کی نسبت واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ یو این ویمن کی حالیہ رپورٹ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اگرچہ کچھ عورتیں ابھی تک نوکریاں کر رہی ہیں مگر ان کی ملازمت کے مواقع ایسی شعبوں میں محدود ہو گئے ہیں جو سماجی اقدار اور حکومتی قواعد پر پورا اترتے ہوں، جیسے عورتوں پر مشتمل گھریلو صنعتیں، سلائی کڑھائی، دستکاری، وغیرہ۔
Short Biography of Yasmeena Afghan|| Style X
پیشے کے متعلق تفصیل دنیا کو بتا دی ہے۔ ڈیلی سٹار کے مطابق 27سالہ یاسمینہ علی اس وقت بچپن میں تھی جب 1990
ءکی دہائی میں طالبـان اقتدار میں آئے۔ اس کی پرورش انتہائی مذہبی ماحول میں ہوئی۔ بعد ازاں وہ اس ماحول سے فرار ہو کر مغربی دنیا میں گئی اور وہاں نہ صرف اس شرمناک پیشے سے وابستہ ہوگئے گئی بلکہ اسلام چھوڑ کر یہودی مذہب بھی قبول کر لیا تھا۔ میزبان سے گفتگو کرتے ہوئے یاسمینہ کا کہنا تھا کہ ”میں ایک ایسے ملک میں
پیدا ہوئی جہاں اس وقت ماحول انتہائی سفاکانہ تھا۔ میرے خیال میں میں افغانستان کی واحد لڑکی ہوں جو اس انڈسٹری میں آئی۔ مجھے تعلیم حاصل کرنے کا موقع بھی نہیں ملا کیونکہ اس دور میں افغانستان میں خواتین کے لیے تعلیم ممنوع تھی۔ میں نے مردوں اور خواتین کے
Her real name is Khadija Patman, Yasmeena is just her screen name. She was born in Kabul, Afghanistan in 1990. She moved with her family to England where she became a girlfriend of a Jewish guy. He introduced her into the porn industry. Later she married her Jewish boyfriend.
حقوق میں ایک وسیع فرق دیکھا ہے۔ “یاسمینہ کا کہنا تھا کہ ”میرے اندر شروع سے ہی باغیانہ خیالات پنپنے شروع ہو گئے تھے۔ یہ اس سفاکانہ ماحول اور مردوخواتین کے درمیان فرق ہی کا شاخسانہ تھا کہ میں اسلام چھوڑ کر ملحد ہوگئی اور پھر یہودیت قبول کر لی۔ میری زندگی اس وقت تبدیل ہوئی جب میری فیملی افغانستان سے فرار ہو کر برطانیہ پہنچی۔ اس وقت میری
عمر9سال تھی۔ برطانیہ میں میں سکول گئی اور وہاں مجھے اس بارے میں ایجوکیشن دی گئی۔ زندگی میں پہلی بار جنسی تعلق قائم کرنے کے بعد ہی مجھے جنسیت کی لت پڑ گئی اور میں بتدریج اس انڈسٹری کی طرف راغب ہوتی چلی گئی۔ “ واضح رہے کہ یاسمینہ علی کو اس وقت عالمی سطح پر شہرت ملی تھی جب اس کے باپ اور ایک کزن نے فحش فلم انڈسٹری جوائن کرنے پر اسے جان سے مارنے کی کوشش کی تھیاور وہ دونوں ناکام ہوگئے تھے پولیس نے دونوں کو حراست میں لے لیا تھا
افغانستان کے شہر فرح سے تعلق رکھنے والی 26 سالہ لینا* کہتی ہیں: "میں نے صحافت میں تعلیم حاصل کر رکھی ہے اور سات سال بطور صحافی کام کر چکی ہوں۔ طالبان حکومت کے قیام کے بعد مجھے اپنے کام سے وقفہ لینا پڑا کیونکہ میں ڈر گئی تھی۔"
لینا کو کسی نے جان سے مار دینے کی دھمکی نہیں دی۔ مگر 15 اگست 2021 کو افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد کئی خواتین کو ایسی دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔ اس دوران طالبان حکومت ستر سے زائد سرکاری احکامات، ہدایات اور بیانات کے ذریعے زندگی کے تقریبا ہر شعبے میں عورتوں اور لڑکیوں کے حقوق محدود کر چکی ہے جس سے جنسی برابری پر ہونے والے دہائیوں پر مشتمل کام اور حاصل کردہ ترقی کو مٹا دیا گیا ہے۔
دسمبر 2021 میں جاری کردہ ایک عدالتی فرمان کے مطابق اپنے گھر سے 77 کلومیٹر (47 میل) سے زیادہ سفر کرنے کی صورت میں افغان عورتوں کے ساتھ کسی مرد رشتہ دار کا ہونا لازم ہے۔ مگر ملک کے دوسرے حصوں میں اس سے کم سفر کی صورت میں بھی عورتوں سے توقع کی جاتی ہے کہ کوئی مرد سر پرست ان کے ساتھ ہو۔ اکیلے سفر کرنے پر چیک پوسٹوں پر انھیں روکا جاتا ہے اور ان سے تفتیش کی جاتی ہے۔ اس عمل میں کئی عورتوں کو ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔
اسی طرح مارچ 2022 سے افغان لڑکیوں پر سیکنڈری سکول جانے پر پابندی عائد ہے اور اسی سال کے آخر سے ان کا جامعات میں داخلہ بھی ممنوع کر دیا گیا تھا۔ یو این ویمن کی افغانستان پر تازہ ترین رپورٹ کے مطابق تقریبا 11 لاکھ لڑکیاں سیکنڈری سکول کی عمر میں ہونے کے باوجود سکول جانے سے محروم ہیں۔ لڑکیوں کے لئے پرائمری سکول کھلے ہونے کے باوجود سماجی قوائد اور رسائی اور حفاظت سے جڑے مسائل کے سبب ان کے داخلوں کی شرح میں کمی آئی ہے۔
"عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا چاہتی ہیں۔ وہ اپنے گھروں میں ہی نہیں بلکہ حکومت اور دیگر جگہوں پر فیصلہ کرنے کا حق چاہتی ہیں۔ وہ تعلیم چاہتی ہیں اور اپنے حقوق کی خواہاں ہیں۔"
لینا کہتی ہیں کہ "یہ پابندیاں عورتوں کو گھر کے ایک کونے تک محدود کر کے ان کی خود اعتمادی اور عزتِ نفس کو کم کر دیتی ہیں۔ میں جانتی ہوں کہ وہ کس حال میں ہیں اور اس لئے ان کے لئے میرا آواز اٹھانا بہت اہم ہو گیا ہے۔ میں رپورٹس اور کہانیاں لکھ کر ان عورتوں کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔ شاید میرے اس کام کی وجہ سے بین الاقوامی تنظیمیں ان کی آواز سن پائیں اور ان کی مدد کو آئیں۔"
لینا ان 147 خواتین میں بھی شامل ہیں جنہیں یو این ویمن کی جانب سے کمیونٹی میں رضاکارانہ سرگرمیاں کرنے اور ان کی کہانیاں سامنے لانے کی تربیت دی گئی تاکہ وہ افغانستان بھر میں عورتوں سے ان کے مسائل کے بارے میں مشاورت کریں اور بین الاقوامی کمیونٹی اور ڈی ایف اے کو ان کی ضروریات اور ترجیحات کے حوالے سے آگاہ کیا جا سکے۔
لینا کو اکتوبر 2023 میں مغربی افغانستان میں آنے والے زلزلوں سے متاثرہ عورتوں کے انٹرویو کرنے کی ذمہ داری بھی دی گئی۔
"اس مشاورت کے عمل میں شامل ہونے والی خواتین اس بات کی بہت قدر کرتی ہیں کہ انھیں سنا جا رہا ہے۔" لینا کہتی ہیں۔ "مجھے ایک خاتون یاد ہیں جو طالبان حکومت سے پہلے ایک استانی تھیں اور سماجی تنظیم چلاتی تھیں۔ وہ ایک بیوہ ہیں اور ان کی دو بیٹیاں ہیں، مگر طالبان کے حکومت میں آنے اور عورتوں پر قدغنوں کے بعد ان کی تنظیم بند کر دی گئی اور ان کے لئے کوئی ذریعہ معاش نہیں بچا۔ ان کی ایک بیٹی نے خودکشی کر لی جس کے بعد وہ شدید ذہنی مسائل کا شکار ہو گئیں۔ مگر مجھ سے بات کر کے وہ بہت خوش ہوئیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ تین سال میں پہلی دفعہ کسی نے ان سے ان کی زندگی اور جذبات کے بارے میں پوچھا۔"
2023 میں طالبان کے حکومت میں آنے کی تین سال بعد کئے جانے والے ایک سروے کے مطابق آٹھ فیصد لوگ کم از کم ایک عورت یا لڑکی کو جانتے ہیں جس نے اگست 2021 سے اب تک خودکشی کی کوشش کی ہو۔ اسی طرح اگست اور اکتوبر 2023 کے درمیان کی گئی مشاورتوں میں 18 فیصد خواتین نے بتایا کہ وہ آخری تین ماہ میں اپنے قریبی خاندان سے باہر کسی عورت سے ایک بار بھی نہیں ملیں۔
Comments
Post a Comment