دکھی بیوی کی کہانی

سمیہ اور اس کا شوہر ذات کے موچی تھے ۔ سمیہ کا شوہر جانوروں کا بیوپار کرتا تھا ۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ وہ چار جانوروں کو لے کر پشاور کی منڈی میں گیا ۔ وہاں کسی نے جعلی نوٹ دے کر سمیہ کے شوہر سے چاروں جانور خرید لیے ۔ سمیہ کا شوہر پڑھا لکھا بھی نہیں تھا اور تھا





ایک دیہاتی بنانوٹ چیک کئے ۔ اس نے پیسے جیب میں ڈالے اور گھر کی طرف روانہ ہو گیا ۔ راستے میں راولپنڈی پہنچ کر سمیہ کے شوہر نے ایک ہوٹل سے کھانا لیا اور جب ان کو کھانے کا بل دیا تو ہوٹل والوں نے پہچان لیا کہ نوٹ جعلی ہے ہوٹل والوں نے سمیہ کے شوہر کو ہوٹل میں بٹھا کر پولیس کو اطلاع. کر دی ۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر سمیہ کے شوہر کو گرفتار کر لیا ۔ سمیہ کے شوہر کو تھانے لے جا کر انو میلیشن شروع کر دی گئی ۔ جبکہ سمیہ کے شوہر نے سب کچھ کے پی پولیس کو بتا پچ پچ دیا تھا لیکن اس کے باوجود پولیس نے سمیہ کے شوہر پر تھرڈڈ گری کا تشدد کیا اور پوچھتے رہے کہ بتاؤ جعلی نوٹ بنانے والی منشینکہاں رکھی ہوئی ہے اور سمیہ کے شوہر کو کیا خبر تھی کہ مشین کہاں ہے ؟ وہ تو پہلے ہی عمر بھر کی بچت لٹا کر آرہا تھا ۔ پیچھے سمیر کے دیور کو بھی اطلاع کر دی گئی کہ تمہارا بھائی جعلی کرنسی کا کاروبار کرتے پکڑا گیا ہے۔اتنی بڑی خبر جب سمیہ تک پہنچی تو سن کر اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ۔ وہ بھاگم بھاگ راولپنڈی میںمتعلقہ پولیس اسٹیشن گئی ۔ وہاں شوہر کے سامنے پہنچے ہی تھی

کہ کہ سمیہ کے شوہر نے سمیہ اور اپنے بھائی کے پاؤں پکڑ لئے اور کہا کہ کچھ بھی کر کے ان ظالموں سے میری جان چھڑاؤ ۔ سمیہ کا شوہر پولیس تشد دسر سہہ کر مرنے کے قریب تھا ۔ پولیس نے اسے چھوڑنے کے لئے تین لاکھ روپے مانگے جو کہ سمیہ نے اپنے اورسمیہ اور اس کا شوہر ذات کے موچی تھے ۔ سمیہ کا شوہر جانوروں کا بیوپار کرتا تھا ۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ وہ چار جانوروں کو لے کر پشاور کی منڈی میں گیا ۔ وہاں کسی نے جعلی نوٹ دے کر سمیہ کے شوہر سے چاروں جانور خرید لیے ۔ سمیہ کا شوہر پڑھا لکھا بھی نہیں تھا اور تھا بھیاپنی بہن کے زیور تک بیچ کر پولیس کو دیئے اور شوہر زندہ واپس مل جانے پر خدا کا شکر ادا کیا مگر اس کے بعد سمیہ اور مقروض ہوتی گئی۔اس کے شوہر کو بیٹائٹس ہو گیا ۔ ہیپیٹائٹس کا علاج جاری تھا ۔ اسی دوران شو گر کا مسئلہ بن گیا ۔ شوگر کی تکلیف کم کرنے کی دوا استعمال کرتے کرتے رافع کے شوہر کے گردے ڈیج ہو گئے ۔ابھی گردوں کا علاج شروع ہوا ہی تھا کہ سمیہ کے شوہر کی شوگر پھٹ گئی ۔

شو گر پھٹنے کے تین دن بعد ہی سمیہ کے شوہر کا انتقال ہو گیا ۔ جب رافع کے شوہر کا انتقال ہوا تو سمپہ ڈیڑھ لاکھ کی مقروض ہو چکی تھی ۔ جن لوگوں کا ب سے زیادہ قرض دینا تھا وہ تقریبا ساٹھ ہزار تھا ۔ اس فیملی میں بڑی عمر کے ایک آدمی کوایک بیٹی کا رشتہ دے کر سمیہ نے اپنا قرضہ معاف کروالیا ۔ جبکہ جس آدمی نے سمیہ کی بیٹی سے نکاح کیا ہے وہ اپنی بیوی کو سمیہ تک سے ملنے نہیں دیتا تھا ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر تشدد کرتا تھا ۔ اگر سمیہ کی بیٹی کی طرف سے کوئی بھی ۔ ملنے یا بات کرنے جاتا تو صاف کہہ دیتا کہ میں خرید کر لایا ہوں ۔ تم کون ہوتے ہواس معاملے میں ٹانگ اڑانے والے ۔ جن لوگوں کا میں پچیس ہزار تک قرض تھا ۔ ان کے گھروں میں کام شروع کر دیا اور ان کے قرض کے بدلے تینوں ماں بیٹیاں ان کے گھروں میں کام کرنے لگیں تھی ۔ ایک دن سمیہ باتھ روم صاف کر رہی تھی کہ اس کا پاؤں سلپ ہوا اور وہ فرش پر جا گری ۔ پختہ فرش پر گرنے کی وجہ سے سمیہ کاسمیہ اور اس کا شوہر ذات کے موچی تھے ۔ سمیہ کا شوہر جانوروں کا بیوپار کرتا تھا ۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ وہ چار جانوروں کو لے کر پشاور کی منڈی میں گیا ۔ وہاں کسی نے جعلی نوٹ دے کر سمیہ کے شوہر سے چاروں جانور خرید لیے ۔ سمیہ کا شوہر پڑھا لکھا بھی نہیں تھا اور تھا بھی بازو ٹوٹ گیا ۔ موٹر سائیکل پر ہاسپٹل لے جانے کا کہا تو اس نے یہ کہتے ہوۓ انکار کر دیا کہ ہسپتال والے پیسے زیادہ لیتے ہیں اور ایک دیسی حکیم سے ہڈی جڑوا کر پلستر لگوالیا ہڈی جڑواتے وقت درد کی شدت سے سمیہ کی آنکھوں میں آنسو نکل آئے مگر اپنی بچیوں کی مجبوری چھوٹے بھوک سے بلکتے بچے نظروں کے سامنے دیکھ کرسمیہ نے درد برداشت کرنا گوارا کر لیا ۔ لیکن ہسپتال کا خرچہ بچالیا ۔ سمیہ کے ساتھ بازو جڑوانے کی خاطر جانے والا لڑکے نے بتایا کہ نکھوں میں اس وقت آنسو آگئے جہ سمیہ نے سڑک پر پڑا ہوا ہوا خراب سیب یہ کہتے ہوۓ اٹھالیا کہ گھر جا کر صاف صاف جگہ کاٹ کر بچوں کو کھلا دوں گی ۔

میری کیونکہ ان کے باپ کی قل خوانی کے بعد کبھی ہمارے گھر فروٹ نہیں آیا ۔ دوسرے دن جب اپنی نوجوان بیٹیوں کے ساتھ سمیہ کو کام پر جاتے دیکھا تو سمیہ کو پٹی کروانے کے جانے والے لڑکے نے سمیہ کو آرام کرنے کا کہا تو جواب میں سمیہ نے کہا بیٹا درندوں کا زمانہ میری بیٹیاں میرے سامنے نہ ہوں تو میں بے سکو رہتی ہوں ۔ مجھے لگتا ہے کہ کوئی نہ کوئی درندہ میری بیٹیوں کو کوئی نقصان نہ پہنچادے اور مجھے پتہ ہے کہ میری بیٹیوں کی تو زندگی ختم ہو جاۓ گیا ۔ تب بھی میں انصاف نہ لے پاؤں گی قانون میری مدد کی بجاۓ ، مجرموں کی حفاظت کرے گا

Comments