کہیں آپ کا بھی انجام ایسا نہ ہو

 شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ ایک شیربڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہو گیا اور چلنے پھرنے سے معذور ہو گیا‘ بھوک سے جب برا حال ہوا تو کسی لومڑی سے مشورہ کیا‘



 اس نے کہا ’’ فکر نہ کرو‘ میں اس کا بندوبست کردوں گی‘‘ یہ کہہ کر لومڑی نے پورے جنگل میں مشہور کر دیا کہ شیر بہت بیمار ہے اور بچنے کی کوئیامید نہیں ہے‘یہ خبر سنتے ہی جنگل کے جانور اس کی عیادت کو آنے لگے‘ شیر غار میں سر جھکائے پڑا رہتا اور عیادت کے لئے آنے والے جانوروں کا شکارکر کے اپنی بھوک مٹاتا رہتاایک دن لومڑی شیر کا حال احوال پوچھنےکیلئے آئی اور غار کے دہانے پر کھڑی ہو گئی‘ اتفاقاًاس دن کوئی جانور نہ آیا تھا 




جس کی وجہ


سے شیر بھوکا تھا‘اس نے لومڑی سے کہا ’’باہر کیوں کھڑی ہو‘ اندر آؤاور مجھے جنگل کا حال احوال سناؤ‘‘ لومڑی خطرہ بھانپ کر بولی ’’ نہیں میں اندر نہیں آ سکتی‘ میں یہاں سے باہر آنے والے جانوروں کے پنجوں کے نشان دیکھ رہی ہوں لیکن واپسی کے نہیں‘‘۔ شیخ سعدی ؒ اس حکایت سے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ انجام پر ہمیشہ نظر رکھنے والے ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہتے ہیں۔



بالکل اسی طرح آج کل ہمارے معاشرے کا بھی یہی حال ہے آپ جس کو جتنے اپنے خلوص دل کے ساتھ جتنا زیادہ فائدہ دے رہے ہیں وہ آپ کو اتنا ہی نقصان ہوگا اس لئے اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر ہم کسی کو فائدہ دے رہے ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ ہم اس کو لازمی دیکھیں کہ وہ ہمارے بارے میں کیا کر رہا ہے لازمی سوچیں اگر آپ اس کے ساتھ کام کر رہے ہیں آپ اس کو فائدہ دے رہے ہیں تو آپ پر یہ فرض ہے کہ آپ اس بات کو ذہن نشین لازمی کرلیں کہ وہ سکتا ہے کہ وہ آپ کو کیا نقصان نہ دے رہا ہوں

Comments