- Get link
- X
- Other Apps
- Get link
- X
- Other Apps
رمضان کی فضیلت پر احادیث || رمضان کی عظمت، حرمت اور فضیلت!! رمضان کی فضیلت پر تقریررمضان کی
عظمت، حرمت اور فضیلت!!
الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات میں انسان کو اشرف واکرم بنایا، اس کی فطرت میں نیکی اور بدی، بھلائی اور برائی ، تابعداری وسرکشی اور خوبی وخامی دونوں ہی قسم کی صلاحیتیں اور استعدادیں یکساں طور پر رکھ دی ہیں۔ اسی کا ثمرہ اور نتیجہ ہے کہ کسی بھی انسان سے اچھائی اور برائی دونوں ہی وجود میں آسکتی ہیں۔ ایک انسان سے حسنات بھی ممکن ہیں اور سیئات بھی، اس کے باوجود کوئی سیئات ومعصیات سے مجتنب ہوکر اپنی زندگی اور اس کے قیمتی لمحات کو حسنات وطاعات سے مزین اور آراستہ کرلے تو یہ اس کے کامیاب اور خالق ومخلوق کے نزدیک اشرف واکرم ہونے کی سب سے بڑی نشانی ہے اور یہی تقویٰ وپرہیزگاری ہے جو روزہ کا مقصدِ اصلی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’یٰأَیُّہَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ أَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ۔‘‘ (البقرۃ:۱۸۳، ۱۸۴)
’’اے ایمان والو! فرض کیا گیا تم پر روزہ، جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر، تاکہ تم پرہیزگار ہوجاؤ، چند روز ہیں گنتی کے۔‘‘
تقویٰ کا معنی ہے: نفس کو برائیوں سے روکنا اور اس کا سب سے بڑا ذریعہ روزہ ہے، جیسا کہ ایک صحابیؓ نے حضور اکرم a سے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول! مجھے کسی ایسے عمل کا حکم دیجیے جس سے حق تعالیٰ مجھے نفع دے‘‘ ، آپ a نے ارشاد فرمایا: ’’علیک بالصوم، فإنہٗ لامثل لہٗ‘‘ (سنن نسائی، ج:۱، ص:۱۴۰) ۔۔۔۔۔۔۔ ’’یعنی روزہ رکھا کرو، اس کے مثل کوئی عمل نہیں۔‘‘ اب رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، گویا یہ مہینہ نیکیوں اور طاعات کے لیے موسمِ بہار کی طرح ہے، اسی لیے رمضان المبارک سال بھر کے اسلامی مہینوں میں سب سے زیادہ عظمتوں، فضیلتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو اپنی رضا، محبت وعطا، اپنی ضمانت واُلفت اور اپنے انوارات سے نوازتے ہیں۔ اس مہینہ میں ہر نیک عمل کا اجروثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس ماہ میں جب ایمان اور احتساب کی شرط کے ساتھ روزہ رکھا جاتا ہے تو اس کی برکت سے پچھلی زندگی کے تمام صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور جب رات کو قیام (تراویح) اسی شرط کے ساتھ کیا جاتا ہے تو اس سے بھی گزشتہ تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اس ماہ میں ایک نیکی فرض کے برابر اور فرض ستر فرائض کے برابر ہوجاتا ہے، اس ماہ کی ایک رات جسے شبِ قدر کہا جاتا ہے وہ ہزار مہینوں سے افضل قرار دی گئی ہے۔
رمضان کا روزہ فرض اور تراویح کو نفل (سنت مؤکدہ) بنایا ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے، اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور خیرخواہی کا مہینہ ہے، اس میں مؤمن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے، اس میں روزہ افطار کرنے والے کی مغفرت، گناہوں کی بخشش اور جہنم سے آزادی کے پروانے کے علاوہ روزہ دار کے برابر ثواب دیا جاتا ہے، چاہے وہ افطار ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے ہی کیوں نہ کرائے، ہاں! اگر روزہ دار کو پیٹ بھرکر کھلایا یا پلایا تو اللہ تعالیٰ اسے حوضِ کوثر سے ایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد وہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہ ہوگا۔ اس ماہ کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ہے۔ جس نے اس ماہ میں اپنے ماتحتوں کے کام میں تخفیف کی تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ اس کی مغفرت اور اسے جہنم سے آزادی کا پروانہ دیں گے۔ پورا سال جنت کو رمضان المبارک کے لیے آراستہ کیا جاتا ہے۔ عام قانون یہ ہے کہ ایک نیکی کا ثواب دس سے لے کر سات سو تک دیا جاتا ہے، مگر روزہ اس قانون سے مستثنیٰ ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’روزہ صرف میرے لیے ہے اور اس کا اجر میں خود دوں گا۔‘‘ روزہ دار کو دو خوشیاں ملتی ہیں: ایک افطار کے وقت کہ اس کا روزہ مکمل ہوا اور دعا قبول ہوئی، اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے روزہ افطار کیا اور دوسری خوشی جب اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہوگی۔ روزہ دار کے منہ کی بو (جو معدہ کے خالی ہونے کی وجہ سے آتی ہے) اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ خوشبودار ہے۔ روزہ اور قرآن کریم دونوں بندے کی شفاعت کریں گے اور بندے کے حق میں دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔
اب چند وہ باتیں عرض کی جاتی ہیں، جن کا حضور اکرم a خود بھی اہتمام کیا کرتے تھے اور اُمت کو بھی اس کی تعلیم اور تلقین فرماتے تھے:
۱:-حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کی تاریخوں کی جس قدر نگہداشت فرماتے تھے اتنا دوسرے مہینوں کی نہیں فرماتے تھے۔
۲:-حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رمضان کی خاطر شعبان کے چاند کا اہتمام کیا کرو۔
۳:- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کھانے کا حکم فرمایا کہ: ’’سحری کھایا کرو، کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔‘‘ اور فرمایا: ’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان سحری کھانے کا فرق ہے۔‘‘ یعنی اہلِ کتاب کو سوجانے کے بعد کھانا پینا ممنوع تھا اور ہمیں صبح صادق کے طلوع ہونے سے پہلے تک اس کی اجازت ہے۔
۴:-آپ a نے فرمایا:’’ لوگ ہمیشہ خیر پر رہیں گے جب تک کہ (غروب آفتاب کے بعد) افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔‘‘
افطار کی دعا: ’’ذَہَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَائَ اللّٰہُ۔‘‘۔۔۔۔۔ ’’پیاس جاتی رہی، انتڑیاں تربتر ہوگئیں اور اجر ان شاء اللہ ثابت ہوگیا۔‘‘ اسی طرح : ’’اَللّٰہُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ أَفْطَرْتُ۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’ اے اللہ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے رزق سے افطار کیا۔‘‘
۵:-رمضان میں ذکر کرنے والا بخشا جاتا ہے اور اس ماہ میں مانگنے والا بے مراد نہیں رہتا۔
۶:-روزہ دار کی روزانہ ایک دعا قبول ہوتی ہے۔
۷:-رمضان میں روزانہ بہت سے لوگ دوزخ سے آزاد کیے جاتے ہیں۔
۸:-حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے اخیرعشرہ میں خود بھی شب بیدار رہتے اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی بیدار رکھتے۔
۹:-حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شبِ قدر کو رمضان کے اخیر عشرہ میں تلاش کرو۔
۱۰:-جب لیلۃ القدر آتی ہے تو جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کی معیت میں نازل ہوتے ہیں اور ہر بندہ جو کھڑا یا بیٹھا اللہ تعالیٰ کا ذکر کررہا ہو (اس میں تلاوت، تسبیح وتہلیل اور نوافل سب شامل ہیں، الغرض کسی طریقے سے ذکر وعبادت میں مشغول ہو) اس کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں۔
۱۱:-لیلۃ القدر کی دعا: ’’اَللّٰہُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ۔‘‘ ۔۔۔۔’’اے اللہ! آپ بہت معاف کرنے والے ہیں، معافی کو پسند فرماتے ہیں، پس مجھے بھی معاف فرمادیجیے۔‘‘
۱۲:-اگر کسی نے بغیر عذر اور بیماری کے رمضان کا ایک روزہ چھوڑدیا ، خواہ وہ ساری زندگی روزہ رکھتا رہے، وہ اس کی تلافی نہیں کرسکتا۔
۱۳:- رمضان میں چار کام کثرت سے کیے جائیں: دو کام جن سے اللہ راضی ہوتے ہیں: ۱:- ’’لاإلٰہ إلا اللّٰہ‘‘ کی کثرت، ۲:-استغفار زیادہ سے زیادہ پڑھا جائے۔اور دو کام جو ہر انسان کی ضرورت ہیں: ۱:- اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کیا جائے، ۲:-جہنم سے پناہ مانگی جائے۔
۱۴:-تراویح کے بارہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جس نے ایمان کے جذبے سے اور ثواب کی نیت سے رمضان کا روزہ رکھا، اس کے پہلے گناہ بخش دیئے جائیں گے، اور جس نے رمضان (کی راتوں) میںقیام کیا، ایمان کے جذبے اور ثواب کی نیت سے اس کے پہلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔‘‘
۱۵:-اعتکاف کے بارہ میں آپ a نے فرمایا: ’’جس نے رمضان میں (آخری) دس دن کا اعتکاف کیا، اس کو دو حج اور دوعمرے کا ثواب ہوگا۔ دوسری حدیث میں ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی خاطر ایک دن کا بھی اعتکاف کیا، اللہ تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان ایسی تین خندقیں بنادیں گے کہ ہر خندق کا فاصلہ مشرق ومغرب سے زیادہ ہوگا۔‘‘
۱۶:- رمضان میں قرآن کریم کا دور اور جودوسخاوت کی جائے، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جود وسخا میں تمام انسانوں سے بڑھ کر تھے اور رمضان میں آپ کی سخاوت بہت بڑھ جاتی تھی۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم کا دور کیا کرتے تھے۔
۱۷:-روزہ کی حالت میں بے ہودہ باتوں : مثلا: غیبت، بہتان، گالی گلوچ، لعن ، طعن، غلط بیانی، تمام گناہوں سے پرہیز کیا جائے، ورنہ سوائے بھوکا پیاسا رہنے کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اگر کوئی دوسرا آکر ناشائستہ بات کرے تو یہ کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں، کیونکہ روزہ ڈھال ہے، جب تک کوئی اس کو پھاڑے نہیں اور یہ ڈھال جھوٹ اور غیبت سے پھٹ جاتی ہے۔
یہ مہینہ گویا ایمان اور اعمال کو ریچارج کرنے کے لیے آتا ہے۔ رمضان عربی کا لفظ ہے، جس کا اُردو میں معنی ہی شدتِ حرارت کے ہیں، یعنی اس ماہ میں اللہ رب العزت روزہ کی برکت اور اپنی رحمتِ خاصہ کے ذریعہ اہلِ ایمان کے گناہوں کو جلا دیتے اور ان کی بخشش فرمادیتے ہیں، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں:
’’إذا دخل رمضان فُتحت أبواب السماء، وفی روایۃ: ’’فُتحت أبواب الجنۃ‘‘ وغُلقت أبواب جہنم ، وسُلسلت الشیاطین، وفی روایۃ ’’فُتحت أبواب الرحمۃ۔‘‘ (متفق علیہ، بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب الصوم،ص:۱۷۳)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جب رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ، اور ایک روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں، اور ایک روایت میں بجائے ابوابِ جنت کے ابوابِ رحمت کھول دیئے جانے کا ذکر ہے۔‘‘
’’قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : یہ حدیث ظاہری معنوں پر بھی محمول ہوسکتی ہے، لہٰذا جنت کے دروازوں کا کھلنا، دوزخ کے دروازوں کا بند ہونا اور شیطانوں کا قید ہونا اس مہینے کی آمد کی اطلاع اور اس کی عظمت اور حرمت وفضیلت کی وجہ سے ہے، شیاطین کا بند ہونا اس لیے ہوسکتا ہے کہ وہ اہلِ ایمان کو وسوسوں میں مبتلا کرکے ایمانی وروحانی اعتبار سے ایذا نہ پہنچاسکیں، جیسا کہ دستورِ زمانہ بھی ہے کہ جب کوئی اہم موقع ہوتا ہے تو خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں، تمام شرپسندوں کو قید کردیا جاتا ہے، تاکہ وہ اس موقع پر کوئی رخنہ وفتنہ پیدا نہ کریں، اور حکومت اپنے حفاظتی دستوں کو ہر طرف پھیلادیتی ہے، یہی حال رمضان المبارک میں بھی ہوتا ہے کہ شیطانوں کو قید کردیا جاتا ہے۔اور اس سے مجازی معنی بھی مراد لیے جاسکتے ہیں، کیوں کہ شیاطین کا اُکسانا اس ماہ میں کم ہوجاتا ہے، اس لیے گویا وہ قید ہوجاتے ہیں۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ جنت کے دروازے کھولنے سے مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر طاعات اور عبادات کے دروازے اس ماہ میں کھول دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جو عبادتیں کسی اورمہینے میں عام طور پر واقع نہیں ہوسکتیں، وہ عموماً رمضان میں بآسانی ادا ہوجاتی ہیں،یعنی روزے رکھنا، قیام کرنا، وغیرہ۔‘‘ (نووی شرحِ مسلم، از برکاتِ رمضان ، ص:۴۴)
الغرض رمضان المبارک کی بڑی فضیلت ہے، اسی وجہ سے کہا گیا کہ اگر لوگوں کو رمضان المبارک کی ساری فضیلتوں اور برکتوں کا پتہ چل جائے تووہ تمنائیں کریں کہ کاش! سارا سال رمضان ہوجائے۔
رمضان المبارک کی بے شمار خصوصیتیں ہیں،جن میں چند ایک یہ ہیں:
۱:-سال بھر کے مہینوں میں رمضان المبارک ایک ایسا مہینہ ہے جس کا ذکر صراحت کے ساتھ قرآن کریم میں آتا ہے، جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:
’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْأٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّـنٰتٍ مِّنَ الْـہُدٰی وَالْفُرْقَانِ۔‘‘ (البقرۃ:آیت:۱۸۵)
’’رمضان وہ (مبارک) مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو لوگوں کے لیے راہنمائی، ہدایت اور حق وباطل میں تمیز کرنے کا ذریعہ ہے، پس جو کوئی یہ (مبارک) مہینہ پائے اُسے چاہیے کہ وہ اس کے روزے رکھے۔‘‘
۲:-اسی ماہ کو شبِ قدر میں لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر مکمل قرآن کریم کا نزول ہوا، جیسا کہ ارشادِ خدواندی ہے:
’’إِنَّا أَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ تَنَزَّلُ الْـمَلٰئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْہَا بِإِذْنِ رَبِّہِمْ مِّنْ کُلِّ أَمْرٍ سَلٰمٌ ہِيَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ۔‘‘ (القدر:۳-۵)
’’بلا شبہ ہم نے قرآن کو شبِ قدر میں نازل کیا، اور آپ کو کچھ معلوم ہے کہ شبِ قدر کیسی چیز ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس رات میں فرشتے اور روح اپنے رب کے حکم سے ہر معاملہ لے کر حاضر ہوتے ہیں، یہ رات سراسر سلامتی ہے، وہ یعنی اس کی خیر وبرکت صبح طلوعِ فجر تک رہتی ہے۔‘‘
گویا رمضان اور قرآن کریم دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے کہ قرآن رمضان میں آیا تو رمضان کا تذکرہ قرآن کریم میں آیا، اس لیے بعض علماء فرماتے ہیں کہ: رمضان اور قرآن کا جسم اور روح کاسا تعلق ہے۔ رمضان جسم ہے تو قرآن کریم روح ہے:
ماہِ صیام تیرا کیوں نہ ہو احترام
کہ نازل ہوا تجھ میں اللہ کا کلام
اس لیے ہمارے اکابر نے رمضان میں روزہ اور تراویح کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کو سب سے بہتر عبادت قرار دیا۔
۳:-رمضان کی ہر رات ایک منادی اعلان کرتا ہے: ’’یا باغي الخیر! أقبل ویا باغي الشر! اقصر۔‘‘ (مشکوٰۃ، ص:۱۷۳) ۔۔۔۔۔’’اے خیر کے طالب! آگے بڑھ، اور اے شر کے طالب! رُک جا۔‘‘ یعنی خیر کے متلاشی اللہ تعالیٰ کی رضا والے کاموں میں مشغول ہو اور اس کی نافرمانی اور گناہوں سے بازآجا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا اثر اور ظہور ہر آدمی اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ رمضان میں اہلِ ایمان کا عموماً رجحان اور میلان نیکیوں اور عبادات کی طرف زیادہ ہوجاتا ہے۔
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: منبر کے قریب ہوجاؤ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم منبر سے قریب ہوگئے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر کے پہلے درجہ پرقدم مبارک رکھا تو فرمایا: آمین۔ جب دوسرے پرقدم مبارک رکھا تو پھر فرمایا: آمین۔ جب تیسرے پرقدم مبارک رکھا تو پھر فرمایا: آمین۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سے فارغ ہوکر نیچے اُترے توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ: (یا رسول اللہ!) ہم نے آج آپ سے (منبرپرچڑھتے ہوئے) ایسی بات سُنی جو پہلے کبھی نہیں سُنی تھی۔ آپ a نے ارشادفرمایا: اس وقت جبرائیل علیہ السلام میر ے سامنے آئے تھے (جب پہلے درجہ پر میں نے قدم رکھا تو) اُنہوں نے کہا: ہلاک ہوجائے وہ شخص جس نے رمضان المبارک کامبارک مہینہ پایا، پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی، میں نے کہا: آمین۔ پھر جب میں دوسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا: ہلاک ہوجائے وہ شخص جس کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک ہو اور وہ درود نہ بھیجے، میں نے کہا: آمین۔ جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا: ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پائے اور وہ ان کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہوجائے۔ میں نے کہا: آمین۔ (مستدرک حاکم )
رمضان المبارک ایک ایسا مہینہ ہے کہ اس میں ایک انسان کوشش کرے تو ایک رمضان سارے گناہ بخشوانے کے لیے کافی ہے، جو شخص رمضان کے روزے رکھے اور یہ یقین کرکے رکھے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام وعدے سچے ہیں اور وہ تمام اعمالِ حسنہ کا بہترین بدلہ عطا فرمائے گا تو رسولِ اکرمa کا ارشاد ہے:
’’من قام رمضان إیمانًا واحتسابًا غفرلہٗ ماتقدم من ذنبہٖ وماتأخر۔‘‘ (المؤطا بروایۃ محمد بن الحسنؒ )
’’جو شخص ایمان کے ساتھ اور ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے رمضان میں قیام کرے گا (یعنی تراویح اور نوافل وغیرہ پڑھے گا) اس کے پچھلے اور اگلے سب (صغیرہ) گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔‘‘
ایمان اور احتساب کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام وعدوں پر یقینِ کامل ہو اور ہر عمل پر ثواب کی نیت اور اخلاص وللّٰہیت اور رضائے الٰہی کا حصول پیشِ نظر ہو۔
۴:- دین کے جتنے ارکان ہیں وہ طاقت پیدا کرتے ہیں، یعنی ایک عبادت دوسری عبادت کے لیے معاون ومددگار اور تقویت کا باعث بنتی ہے۔ اسی طرح سے رمضان کا روزہ سال کے پورے گیارہ مہینے کی عبادت کے لیے طاقت پیدا کرتا ہے۔ روزہ کی وجہ سے دوسری عبادات کی ادائیگی کا ذوق وشوق پیدا ہوتا ہے اور توانائی ملتی ہے۔ اگر فرض روزہ کے تمام تقاضوں کا لحاظ رکھا گیا تو اس کا اثر پورے گیارہ مہینوں پر پڑے گا اور روزہ دار کی زندگی میں ایک نمایاں تبدیلی ہوگی۔
۵:- روزہ جن چیزوں سے معمور کیا گیا ہے، اس کا لحاظ رکھا جائے۔ روزہ کا منشأ یہ معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہواجائے، یعنی روزہ کے ساتھ ساتھ تراویح ، اشراق، چاشت، اوابین، صلاۃ الحاجۃ، صلاۃ التسبیح،تلاوتِ قرآن، اللہ تعالیٰ کا ذکر، صدقہ، خیرات، عشرۂ اخیرہ کے اعتکاف کی کوشش، شبِ قدر کی تلاش اور دعاؤں کی کثرت کا معمول بنایاجائے اور جتنا ہوسکے ان پر عمل کیا جائے۔
اس ماہ میں غریبوں، یتیموں ، بیواؤں اور مسکینوں کے ساتھ ایثار اور ہمدردی کامعاملہ کیا جائے، ان پر سخاوت کی جائے، یہ اس لیے کہ ایک تو ان کا حق ہے اور دوسرا اس لیے کہ صدقہ وخیرات کرنے سے ممکن ہے کہ اللہ کے کسی بندے کا دل خوش ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرمائے اور ہمارا مقصد پورا ہوجائے۔ یا ہوسکتا ہے ہماری عبادت، ہماری تلاوت، ہماری نمازوں میں کوئی کمی رہ گئی ہو یا اس قابل نہ ہوں کہ وہ قبولیت کامقام حاصل کرسکیں تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں قبول فرمالیں، اس لیے اس ماہ میں ہمیں پوری طرح خیرات وصدقات کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔
بہرحال اس کی عظمتوں، برکتوں اور خصوصیتوں کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی حرمت کا پورا لحاظ رکھے کہ رمضان اللہ تعالیٰ کا شاہی مہمان ہے، جو ہمارے پاس بوجھ بن کر نہیں، رحمت کی موج بن کر آتا ہے، اس لیے اس کے منافی کوئی کام نہ کریں۔
علماء نے لکھا ہے کہ:’’ ایک یہودی نے اپنے بیٹے کو رمضان کے دن میں کھاتے دیکھا تو اُسے مارا کہ تونے اس کی حرمت کو باقی نہ رکھا، کہتے ہیں کہ پھر اسی ہفتہ اس کا انتقال ہوگیا تو شہر کے کسی عالم نے خواب میں دیکھا کہ وہ جنت میں ہے، تعجب سے پوچھا: ’’میاں! تم یہاں کیسے؟ ‘‘ تو اس نے کہا: ’’جب میری موت کا وقت آیا تو حرمتِ رمضان کی وجہ سے مجھے کلمہ پڑھاکر مشرف باسلام کردیا گیا، اور الحمد للہ! میرا خاتمہ ایمان پر ہوا۔‘‘ (نزہۃ المجالس ، مترجم: ۳۲۵۱)
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہماری تمام عبادات کو قبول فرمائے اور آخرت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے طفیل جنت الفردوس نصیب فرمائے۔ آمین
وصلّٰی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین
Comments
Post a Comment