Subscribe Us

حکایتِ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور قاصدِ روم

 حکایتِ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور قاصدِ روم


از مولانا رومی رحمت اللہ علیہ

قیصرِ روم کا سفیرجب ہدایا وتحائف لے کر مدینہ پہنچا تو لوگوں سے دریافت کیا کہ تمہارے بادشاہ کا محل کہاں ہے؟ قوم نے جواب دیا ؎

قوم گفتندش کہ او را قصر نیست

مر عمرؓ را قصرِ جانِ روشنے ست

قوم نے کہاکہ ہمارے بادشاہ کا کوئی محل نہیں البتہ امیرالمؤمنین حضرت عمررضی اللہ عنہ کا محل تو ان کی جانِ پاک ہے جو اللہ کے تعلقِ خاص اور تجلیاتِ قرب سے منور ہورہی ہے جس نے انھیں سارے جہان کے شاہی محلات سے مستغنی کردیاہے۔

اور کہا کہ امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ کے قبرستان میں ملیں گے۔ قبرستان جاکر قاصدِ روم نے دیکھا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ قمیص اتارے ہوئے صرف تہبند پہنے ہو ئے زمین پر سورہے ہیں۔ نہ تخت وتاج، نہ فوج ولشکر نہ حفاظتی دستہ مگر ان کے چہرے پر نظرپڑتے ہی قاصدِ روم رعب وہیبت سے کانپنے لگااور اپنے دل میں کہنے لگا۔

گفت با خود من شہاں را دیدہ ام

پیشِ سلطاناں پنہ بگزیدہ ام

میں نے بڑے بڑے بادشاہوں کو دیکھاہے اور ایک عمر بڑے بڑے سلطانوں کا جلیس وہمنشین رہاہوں۔

از شہانم ہیبت و ترسم نبود

ہیبتِ ایں مرد ہوشم را ربود

بادشاہوں سے مجھے کبھی خوف نہ محسوس ہوا لیکن اس مرد گدڑی پوش کی ہیبت تو میرے ہوش اڑادیتی ہے۔

بے سلاح ایں مرد خفتہ بر زمیں

من بہفت اندام لرزاں چیست ایں

یہ شخص بغیر کسی ہتھیار کے اور بغیر کسی فوجی پہرے کے زمین پر اکیلا سویا ہواہے لیکن کیا وجہ ہے کہ اس کی ہیبت سے میرا پورا جسم کانپ رہاہے اور ایسا لرزہ طاری ہے کہ اگر مجھے سات جسم اور عطاہوجائیں تو اس لرزہ کا تحمل نہ کرسکیں اور سب کانپنے لگیں۔ پھر وہ قاصد دل میں کہنے لگا :

ہیبتِ حق است ایں از خلق نیست

ہیبتِ ایں مرد صاحب دلق نیست

یہ رعب وہیبت اس گدڑی پوش کی نہیں ہے، دراصل یہ اللہ کی ہیبت ہے کیوں کہ اس گدڑی پوش بادشاہ کا قلب اللہ کے قرب اور معیتِ خاصہ سے مشرف ہے پس یہ اسی معیتِ حق کا رعب وجلال ہے جو اس مردِ حق کے چہرے سے نمایاں ہورہاہے۔

پھر یہ قاصد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی صحبت کے فیض سے مشرف باسلام ہوگیا۔

ہر کہ ترسد از حق و تقویٰ گزید

ترسد از وے جن و انس و ہر کہ دید

مولانا فرماتے ہیں:جو خدا سے ڈرتاہے اور تقویٰ اختیار کرتاہے اس سے جن اور انس سب ڈرتے ہیں اور جو بھی دیکھے گا اس پر ہیبت اس مردِ حق کی غالب ہوگی۔

اس حکایت سے یہ سبق ملتاہے کہ انسان کو حقیقی عزت اللہ تعالیٰ کے قوی اور صحیح تعلق سے نصیب ہوتی ہے نہ کہ ظاہری آرایش سے جیسا کہ احمقائے زمانہ اپنے رب کو تو ناراض رکھتے ہیں اور اس کی نافرمانیوں کے باوجود عزت حاصل کرنے لیے بنگلے اور قیمتی لباس اورکاروبار کا سہارا لیتے ہیں لیکن ان کی عزت کا جو مقام ہے وہ دنیا دیکھتی ہے کہ غائبانہ گالیاں پاتے ہیں۔ آج صدرِ مملکت ہیں اور مستعفی ہوئے یاتختہ الٹاگیا تو اخباروں کی سرخیوں پر ان کا اعزاز واکرام نظر آجاتاہے۔یہ دراصل بادشاہ ہیں۔ بادکے معنیٰ ہوا۔ یعنی یہ شاہی ہوا پرتھی۔ اور اولیاء اللہ کی حقیقی شاہی ہوتی ہے اس لیے انھیں شاہ کہاجاتاہے۔ زندگی میں بھی اور انتقال کے بعد بھی دنیا ان کا عزت سے نام لیتی ہے۔

Post a Comment

0 Comments