Subscribe Us

بد دعائے محبت ایک سچی سچی اور مکمل کہانی

 بددعاۓ محبت

مکمل کہانی۔

کزن یار,

یہ الفاظ کبھی مجھے سخت ناپسند تھے۔اور کہنے والا بھی ۔ مگر

اب یہی الفاظ میرا سرمایہ حیات ہیں۔

میری سماعتوں میں آج بھی یہ الفاظ گونجتے رہتے ہیں۔

میرا نام نوشین ہے گھر والے نوشی کہتے ہیں۔مگر

وہ مجھے ہمیشہ کزن یاپھر کزن یار، ہی کہتا تھا۔

وقت وقت کی بات ہے کبھی وہ مجھے سخت ناپسند تھا اور اس کے یہ الفاظ بھی۔بلکہ یوں کہہ لیں کہ مجھے اس سے نفرت ہی تھی۔

اس کے کزن یار کہنے سے میں چڑجاتی تھی۔

اور اسے خوب بےعزت کرتی تھی۔

اسے بات بےبات بےعزت کرنا اور اس کی عزت نفس مجروح کرنا میرا پسندیدہ مشغلہ تھا۔اوریہی مشغلہ اب میرا عمر بھرکاپچھتاوا۔ بلکہ روگ بن گیا ہے۔


وہ جو محبت پہ ہنستا تھا

پھر اسے آ لیا محبت نے۔

یہ شعر مجھے اسی نے سنایا تھا۔وہ اکثر مجھے شعر سنادیتا تھا۔

اسے شاعری سے لگاؤ تھا ۔اور مجھے شاعری سخت ناپسند تھی۔مگر

اب مجھے بہت سی غزلیں اور شعر یاد ہیں وہ سب شعر بھی یاد ہیں جو اس نے مجھے اکثر بیشتر سناۓ تھے۔


وہ میرے ماموں کا بیٹا تھا۔نام تو اس کا عدنان تھا۔مگر

سب اسے عادی کہتے تھے۔سواۓ میرے۔

میں نے اسے کبھی نام سے بلایا ہی نہیں تھا۔اور نہ کبھی اسے انسان سمجھا تھا۔

میں ہمیشہ اسے اوۓ یا اوۓ پینڈو کہہ کر ہی بلاتی تھی۔

وہ ہماری گاڑی چلاتا تھا جس کی وجہ سے میں اسے اکثر ڈرائیور بھی کہہ دیتی تھی۔

اس سے میرا مقصد فقط اس کو ذلیل کرنا ہوتا تھا۔مگر

اس نے کبھی مجھ سے شکوه نہیں کیاتھا۔اور نہ ہی کبھی ناراض ہوا تھا۔

وہ نویں کلاس میں تھا جب ماموں فوت ہوۓ۔گھر میں سب سے بڑا ہونے کے ناطے ساری ذمہ داری عادی کے کندھوں پر آپڑی تھی۔اس نے سکول کو خیرآبادکہا اور محنت مزدوری کرنے لگا۔ہمارے سمعیت عادی کے باقی رشتےدار بھی اچھے بھلے کھاتے پیتے تھے۔مگر

کسی کو بھی اتنی توفیق ہی نہیں ہوئی کہ کوئی ان کے سر پہ ہاتھ رکھ دیتا۔

سب اپنی اپنی دنیامیں مست تھے۔

وقت گزرتارہا عادی نے اپنے بہن بھائیوں کو پڑھایا اور جیسے تیسے گھر کا خرچ بھی چلایا۔پتہ نہیں اس نے کب اور کہاں سے ڈرائیوری سیکھی۔؟؟؟

وہ لوگ کبھی کبھی ہمارے گھر ہم سے ملنے آجاتے تھے۔مگر

ہم لوگ کبھی ان کے گھر نہیں گئے تھے۔

امی ایک دوبار گئی تھیں باقی کوئی نہیں جاتا تھا۔

اب کی بار عادی اپنی امی کے ساتھ آیا تو ابونے اسے گھر ڈرائیور کی آفر کی جس کو اس نے قبول کرلیا۔ابو نے گھر میں کوئی ڈرائیور نہیں رکھا تھا۔وہ خود ہی مجھے اور میری چھوٹی بہن ثمرین کو کالج یونیورسٹی چھوڑنے جاتے تھے۔عادی کے آنے سے ابو بےفکر ہوگئے تھے۔

میں جانتی تھی عادی مجھے پسند کرتا ہے ۔مگر

میں نے کبھی اس پر توجہ ہی نہیں دی تھی۔یوں کہہ لیں کہ 

میں اسے توجہ کے قابل ہی نہیں سمجھتی تھی۔پھر ایک دن اس نے ہمت کرکے اپنی پسند کا اظہار کرہی دیا۔

اس نے کہا تھا نوشی میں تمہیں بچپن سے پسند کرتا ہوں۔میں جانتا ہوں کہ

میں تمہارے قابل نہیں ہوں۔مگر

یہ دل کے فیصلے ہوتے ہیں اس پہ کسی کا کوئی زور نہیں ہوتا۔

تم کسی قابل بھی نہیں ہو۔

میں نے اسے کہاتھا۔ویسے فیصلے دماغ کرتا ہے دل نہیں۔بشرطیکہ کسی کے پاس دماغ نام کی کوئی چیز ہو۔

میں نے اسے آڑھے ہاتھوں لیا ۔

محبت میں فیصلے دل کے ہی ہوتے ہیں کزن۔

عادی نے دھیمے سے لہجے میں کہا۔

محبت میں اگر فیصلے دماغ کرنے لگے تو محبت،محبت نہیں رہتی مفادپرستی بن جاتی ہے۔

بےخطر کودپڑاآتش نمرود میں عشق

عقل محوِتماشا لبِ بام تھی ابھی۔


اس نے حسب عادت اپنی بات کی دلیل میں شعر بھی سنادیا۔

اس کے اظہار کے بعد تو مجھے جیسے اس سے خدا واسطے کا بیر ہی ہوگیا تھا۔

میں نے جان بوجھ کر اسے یہاں تک بھی کہہ دیا تھا۔کہ

وہ مجھے محبت کے چکر میں پھنساکرامیر ہوناچاہتاہے۔اس نے کہاتھا کہ شادی اور محبت دوالگ چیزیں ہیں۔

ضروری نہیں ہم جس سے محبت کریں اس سے ہماری شادی بھی ہوجاۓ۔مگر

یہ بھی کوئی نہیں کہہ سکتا کہ جس سے ہماری شادی ہوگی اس سے ہمیں محبت بھی ہوجاۓ۔محبت کے لیے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں۔اورکچھ خاص انسان بھی۔

میں جانتی تھی کہ عادی کسی لالچ میں مجھ سے محبت نہیں کرتا۔مگر کسی بھی بات پہ سہی

مجھے تو اس کو ذلیل ہی کرنا تھا۔

اس کے بعد جب جب مجھے موقع ملا میں نے اسے خوب بےعزت کیا۔

میں نے زندگی میں کوئی دکھ نہیں دیکھا تھا شاید اس لیے مجھے کسی کے دکھ کا احساس بھی نہیں تھا۔بہت ہی بےحس تھی میں۔

دولت کی فراوانی سے مجھ میں تکبر انا اورنخرہ حد سے زیادہ تھا۔

پھر ایک دن میں نےاپنی دوستوں سے کہہ کر اسے یونی میں بےعزت کرایا۔

میری دوست اس کی محبت اور غربت پہ طنز کرتی رہیں۔

عادی نے سب ہمت سے سنا اور فقط اتناکہاتھا۔کہ

کزن ۔،،،!!!کسی کی محبت کا مذاق نہیں اڑاتے۔اگر اگلا بندہ اپنی محبت میں واقعی سچا اور مخلص ہے تو محبت کی بددعالگ جاتی ہے۔مذاق اڑانے والوں کا ایک دن اپنامذاق بن سکتاہے۔

اور ہم نے اس بات پہ بھی اس کا خوب مذاق اڑایا تھا۔

میرا یونی میں آخری سال تھا ابو کو میرے لیے ایک لڑکا پسند آگیا۔

اعلٰی تعلیم یافتہ اور امیرترین گھرانہ تھا۔ان کی بھی ہماری طرح فیکٹریاں اور دیگر کاروبار تھا۔

لڑکے والے مجھے دیکھنے آۓ اور پسند کرگئے۔ہمارے گھر والوں کو بھی لڑکا پسند آگیا۔منگنی کی تاریخ مقررکردی گئی۔منگنی سے ایک دن پہلے ہی عادی بہانہ بناکر اپنے گاؤں چلاگیا۔شاید اس میں اتنی ہمت ہی نہیں تھی۔کہ

وہ مجھے کسی اور کے نام ہوتے دیکھ سکتا۔

وہ تین چار دن بعد واپس آیا تھا۔

اس کے آتے ہی میں نے اسے اپنے منگیتر سعد کی تصویر دکھائی اور کہا کہ دیکھو ایسے لوگ ہوتے ہیں جن سے محبت کی جاتی ہے۔اور جو کسی قابل بھی ہوتے ہیں۔

یہ سب میں نے فقط اسے جلانے کے لیے کہاتھا۔

اسے تڑپانےکا ایک نیا طریقہ میرے ہاتھ آگیاتھا۔میں جان بوجھ کر موبائل کان سے لگاکر عادی کے قریب سے گزرتی قدرے اونچی آواز میں نہیں جانو جان وغیرہ کہتی۔ہاں یار میں جانتی ہوں تم میرے لیے جان بھی دےسکتے ہو۔

سعد مجھے جتاتا رہتا تھا۔کہ میں اسے بےحد پسند ہوں اور وہ میرے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے۔

کمال کا حوصلہ تھا عادی کا بھی۔اس نے کبھی مجھ سے کوئی گلہ شکوہ نہیں کیا تھا۔بس کبھی کوئی شعر سنادیتایا پھر دھیمی سی مسکراہٹ لبوں پہ سجاۓ رکھتا۔

پھر پتہ نہیں کیا ہوا کہ میری ایک ٹانگ میں مستقل درد رہنے لگا۔بہت علاج کراۓ ملک کے اچھے سے اچھے ڈاکٹر کو دکھایا ۔مگر

کسی کی بھی سمجھ میں کچھ نہیں آرہاتھا۔ایک دن پڑوسن امی سے کہہ رہی تھی۔کہ نوشی کو کسی عامل کے پاس لےجاؤ ہوسکتا ہے کسی نے کوئی جادو ٹونہ کرادیا ہو۔کیا پتہ کسی نے کالا جادو کرادیاہو۔

پڑوسن کی منہ سے کالا جادو کا سن کر میرے ذہن میں پہلا خیال ہی عادی کا آیا تھا۔ضرور اسی کمینے نے حسد میں ایسا کیا ہوگا۔مجھے اپنی طرف مائل کرنے کے لیے۔میرے دماغ نے کہا تھا۔

اور میں بنا سوچے سمجھے اس بات پہ ایمان لےآئی تھی۔

میری عادی سے نفرت میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوگیا تھا۔

اب میں اسے اپنے گھر سے ذلیل کرکے نکالنے کابہانہ ڈھونڈنے لگی۔

میں اب اس کی شکل دیکھنے کی بھی روادار نہیں تھی۔

چھ سات ماہ کے بعد ٹانگ کا درد تو ختم ہوگیا تھا۔مگر بےتحاشہ پین کلر کھانے سے میرے گردے ناکارہ ہوگئے تھے۔ڈاکٹروں نے کہاتھا کہ دونوں گردے ختم ہیں۔ نکالنے پڑیں گے۔

کہیں سے ایک گردے کابندوبست کرلیجیے۔گردہ خریدنا ہمارے لیے کوئی مشکل نہیں تھا۔مگر

مجھے یقین تھا کہ میرامنگیتر سعد مجھے اپناایک گردہ دےدیگا۔وہ مجھ سے اکثر کہتا تھا کہ وہ میرے لیے جان دےسکتا ہے۔ابو نے اپنے جاننے والوں سے بات کی کہ وہ جتنے پیسوں میں بھی ہوسکے کہیں سے ایک گردے کا انتظام کریں۔

سعد میرے لیے بہت فکرمند تھا۔مجھے یقین تھا کہ وہ کہے گا۔نوشی میری جان پریشان ہونے کی ضرورت نہیں میں ابھی زندہ ہوں۔میں دونگا اپنا گردہ تمہیں۔مگرسعد نے ایسی کوئی بات نہیں کی سعد نے اتنا ضرور کہا تھا۔کہ 

پریشان نہیں ہونا ہم کوشش کررہے ہیں جلد ہی کوئی انتظام ہوجاۓ گا۔

پھرمیں نے ایک رات فون پہ خود ہی اسے کہہ دیا کہ جانی اپناایک گردہ مجھے دےدونا۔؟؟؟

میں نے بڑے مان سے کہا تھا۔مجھے یقین تھا کہ سعد کہے گا گردہ کیاچیز ہے تم جان بھی مانگ لو تو حاضر ہے۔

سعد کچھ پل کے لیے چپ ہوگیا تھا۔

نوشی یار ۔۔۔میں تمہیں کیسے اپنا گردہ دےسکتا ہوں۔؟؟؟کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس نےکہا تو میرے مان اور بھروسے کا محل زمین بوس ہوگیا۔

دودن بعد مجھے ہسپتال داخل کرلیا گیا۔گردے کا انتظام ہوگیا تھا۔

مجھے پتہ تھا ابو کروڑوں خرچ کرکے بھی گردے کا انتظام کرلیتے اور انہوں نے کربھی لیا تھا۔

جب سے میری ٹانگ میں درد شروع ہوا تھا۔عادی بہت پریشان رہنے لگا تھا۔مگر

میں جانتی تھی وہ صرف مجھے دکھانے کے لیے پریشان ہونے کا ڈرامہ کرتا ہے تاکہ مجھے اس پہ شک نہ ہو ورنہ اندرسے تو یہ بہت خوش ہوگا۔

پھر میرے گردوں کے ناکارہ ہونے کا سن کر تو وہ مزید پریشان ہوگیا تھا۔

شاید اس نے جو عمل مجھ پہ کرایا تھا۔اسے اس کی اس حد تک توقع نہیں تھی۔؟؟؟

عادی میرے پاس آیا تھا۔اور اس نے مجھے تسلی بھی دی تھی کہ پریشان نہیں ہونا اللہ بہتر کریگا۔

مجھے اس کی شکل سے بھی الجھن ہونے لگی تھی۔میں نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔وہ کچھ دیر بیٹھا رہا میں نے اسے دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔پھر وہ خود ہی اٹھ کرچلاگیا۔

آپریشن کامیاب ہوا تھا۔ہسپتال میں سعد اور اس کے گھر والے میری عیادت کو آۓ تھے۔

عادی تو پہلے دن سے ہی ہسپتال میں تھا۔وہ میرے لیے سفید پھول لیکر آیا تھا۔وہ جانتا تھا کہ مجھے سفید پھول بہت پسند ہیں۔مگرمیں نے اپنی نفرت کا اظہار کرنے کے لیے اس کے لاۓ پھولوں کو اسی کے سامنے توڑ کر پھینک دیا تھا۔میں جس حال میں تھی اس کا ذمہ دار عادی ہی تھا۔اگرچہ میرے پاس اس کا ثبوت نہیں تھا۔مگر عادی کے سوا اور کوئی ایسا نہیں تھا جو مجھ سے انتقام لینا چاہتا ہو۔میری ہر بےعزتی کو اس میسنے انسان نے ہنس کراسی لیے سہاتھا کہ بعد میں یہ مجھے روتاہوادیکھے گا۔

عادی نے اپنے لاۓ پھولوں کا حشر دیکھ کر بس اتنا ہی کہا تھا۔

کزن یار غصہ صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔بلاوجہ کسی سے اتنی نفرت بھی نہ کرو ۔کہ آپ کی نفرت سے کسی کے دل پہ لگے زخم بعد میں آپ کے لیے ناسور بن جائیں۔

عادی کے الفاظ سے مجھے لگا جیسے وہ مجھے جتارہا ہو کہ مجھے اس حال تک لانے والا وہی ہے۔


میں ہسپتال سے گھر آئی تو عادی کی امی یعنی میری ممانی مجھے ملنے آئی تھی۔یہ دوتین بار پہلے بھی میری عیادت کو آچکی تھیں۔

کچھ ہی دنوں میں،میں مکمل ٹھیک ہوچکی تھی۔مجھے بس ایسے موقع کی تلاش تھی کہ عادی کو سب کی نظروں میں ذلیل کرکے اس گھر سے نکلواسکوں۔ اس نےمجھے مارنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی۔اور ایک دن مجھے اچانک ہی ایک شیطانی خیال سوجھا۔

ہمارےگھر کام کرنے ایک بیس بائیس سال کی لڑکی آتی تھی۔میں نے اسے دس ہزار دیا اور کہا کہ میں تمہیں جوکچھ کہونگی وہی سب ابو کے پوچھنے پر ان کے سامنے دہرادینا۔ دس ہزار کی رقم دیکھ کر وہ فوراً تیار ہوگئی تھی۔

میں نے رات کو ابو کے کان بھردیے کہ کام کرنے والی لڑکی نے کہا ہے کہ وہ یہاں کام نہیں کریگی جب تک عادی اس گھر میں ہے۔کیونکہ وہ اسے پیسے کا لالچ دیکر اپنے ساتھ رات گزارنے کا کہتا ہے۔ دوتین بار تو اس نے دست درازی بھی کی ہے۔اگلے دن کام والی آئی تو میں اسے ابو کے پاس لے گئی۔اس نے بھی وہی کچھ کہا جو میں رات ابو کو بتاچکی تھی۔ابو نے عادی سے پوچھنا بھی گوارہ نہیں کیا۔فوراً اسے بلایا اور گھر سے نکل جانے کا حکم دےدیا۔

عادی ہکابکا رہ گیا تھا۔تم نے ہم پہ نیکی کی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم جو مرضی کرتے پھرو۔ابو نے عادی سے کہا۔

میں نے کیا کیا ہے۔؟؟؟ عادی نے سوال کیا تھا۔

تم نے جو کیا ہے وہ کوئی بےشرم اور بےغیرت ہی کرسکتا ہے۔اس سے پہلے کہ ابو کچھ بولتے میں نے عادی کو جواب دیا تھا۔تم بس فوراً اس گھر سے دفع ہوجاؤ۔میں نے بڑی اکڑسے اس سے کہا۔

عادی نے مزید کچھ کہا نہ پوچھا۔

اس نے اپنا بیگ اٹھایا اور چپ چاپ گھر سے نکل گیا۔جانے سے پہلے وہ مجھے کہہ گیاتھا۔

نوشی۔۔!!! مجھے نہیں پتہ تھا تم اس حد تک چلی جاؤگی۔کیونکہ میں نے اسے بتادیا تھا کہ اس کو یہاں سے نکلوانے میں میرا ہاتھ ہے۔

میں تمیں کبھی معاف نہیں کرونگا۔

عادی نے کہا تو میں نے ہنس کر تکبر سے کہا تھا۔تم سے معافی مانگ کون رہا ہے۔؟؟؟اس نے ایک نظر مجھے دیکھا اور چلا گیا۔

میں خوش تھی کہ میں نے اپنا انتقام لےلیا ہے۔

چھ ماہ بعد میری شادی ہونے والی تھی۔میں اور سعد پہلے کی طرح ایک دوسرے سے فون پر ڈھیروں باتیں کرتے تھے۔میں بھول چکی تھی کہ سعد نے مجھے گردہ دینے سے انکار کیا تھا۔

عادی کو گئے چارپانچ ماہ ہی ہوۓ تھے۔میں بھی اس کو بھول کر اپنی دنیا میں مست تھی۔کہ ایک دن فون آیا کہ عادی کو ہارٹ اٹیک آیا ہے اور وہ ہسپتال میں ہے۔مجھے اس خبر سےکوئی فرق نہیں پڑا تھا۔امی اور ثمرین اس کو دیکھنے گئ تھیں۔دوسرے دن ثمرین نے مجھے فون کیا اور کہا کہ

عادی بھائی آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔

میں نے صاف انکار کردیا۔ثمرین نے میری منت ترلے کیے اور یہ بھی کہا کہ ان کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔آپ ان کی خیریت پوچھ کر فون بند کردینا۔شاید وہ کچھ کہنا چاہ رہے ہوں آپ سے۔؟؟؟

مجھے کوئی ضرورت نہیں اس سے بات کرنے کی۔ میری بلا سے وہ مرے یا جیئے۔

میں نے بےحسی سے کہا اور ثمرین کے کچھ بولنے سے پہلے ہی فون بند کردیا۔

کچھ دیر بعد ثمرین کے نمبر سے میسج آیا تھا۔میسج عادی نے کیا تھا۔


میرے تیمارداروں سے

مسیحا جب یہ کہہ دیں گے

دوا تاثیر کھو بیٹھی

دعا کا وقت آ پہنچا

یہ بیماری بہانہ تھی 

قضا کا وقت آ پہنچا

تو کیا تم اتنی بے حس ھو؟؟

یقیں اس پر نہ لاؤگی۔

تو کیا تم اتنی ظالم ھو؟؟

مجھے ملنے نہ آؤگی۔؟؟؟


نیچے عادی کا نام لکھا تھا ۔میں نے فوراً ڈیلیٹ کردیا۔اور

بھاڑ میں جاؤ لکھ کر ریپلاۓ سینڈ کردیا۔جواب پڑھ کر اس کی جو شکل ہوئی ہوگی سوچ کر میں ہنس پڑی تھی۔

اگلے دن صبح میرے فون کی بیل سے میری آنکھ کھلی۔

اتنی صبح کون فون کررہا ہے۔؟؟؟

میں نے بےزاری سے سوچتے ہوۓ ہاتھ بڑھاکر فون اٹھایا اور بمشکل زرا سی آنکھیں کھول کر نمبر دیکھنے کی کوشش کی۔ثمرین کا نام پڑھتے ہی مجھے غصہ آگیا تھا۔مجھے یقین تھا کہ فون عادی کررہا ہوگا یا اس نے ثمرین سے کہاہوگا کہ فون کرکے میری بات کرادو۔اتنی دیر میں موبائل خاموش ہوگیا تھا۔میں نے شکر ادا کیا اور کروٹ بدل کر پھر سونے کی کوشش کرنے گی۔

موبائل ایک بار پھر بج اٹھا۔میں نے غصے سے موبائل اٹھایا اور یس کا بٹن پریس کرتے ہی بےزاری سے بولی۔

ثمی کیا مسلہ ہے تمیں۔؟؟؟

آپی۔۔۔عادی بھائی فوت ہوگئے ہیں۔

ثمرین نے روتے ہوۓ بمشکل اتنا ہی کہا تھا۔

میری نیند غائب ہوگئی۔شاید مجھے ایسی خبر کی توقع نہیں تھی۔

مجھے زرادکھ سا ہوا۔میں کمبل لپیٹ کر سونے کی کوشش کی مگر نیند نہیں آئی تو میں نے اٹھ کر منہ ہاتھ دھویا اور ناشتہ بنانے لگی۔

ابو کو بھی اطلاع مل چکی تھی اور وہ عادی کے گاؤں جانے کی تیاری کررہے تھے۔ابو نے مجھےکہا کہ تم بھی ساتھ چلو۔مگر مجھےایسے رونے دھونے کے موقع سے الجھن ہوتی تھی ۔

میں وہاں کیاکرونگی ابو۔؟؟؟آپ لوگ چلے جائیں۔میں نے انکار کردیا۔

مجھے تھوڑا دکھ ضرور ہوا تھا مگر ایسا بھی نہیں تھا کہ میں دل پہ لےلیتی۔


ابولوگ تین دن بعد واپس آۓ تھے۔

ثمرین نے آتے ہی مجھ سے شکوہ کیاتھا۔آپی آپ نے اچھا نہیں کیا عادی بھائی کے ساتھ اگر ان سے بات نہیں کی تو کم ازکم ان کے مرنے پہ ہی آجاتی۔ان سے ایسی بھی کیاناراضگی تھی آپ کی۔؟؟؟

اس کی آواز سے لگ رہاتھا جیسے وہ روتی رہی ہے۔

میرے جانے سے کونسا اس نے زندہ ہوجانا تھا۔

میں نے جان چھڑانے کےانداز میں کہا۔

آپ کے جانے سے وہ زندہ تو نہیں ہوسکتے تھے۔ البتہ اگر آپ ان سے بات کرلیتی تو شاید وہ زندہ ہی رہتے۔

میں نے اسے ماراہے کیا۔؟؟؟ثمرین کے جواب پر مجھے غصہ آگیا تھا۔

ہاں آپی آپ نے ان کو مارا ہے۔ اس انسان کو جس نے آپ کی زندگی بچائی تھی۔

کیا مطلب۔؟؟؟ثمرین کے جواب پر میں نے سوالیہ انداز میں اسے دیکھتے ہوۓ کہا۔

آپی آپ کو معلوم ہی نہیں کہ

جس سے آپ نے آخری وقت بھی بات کرنا گوارہ نہیں کیا۔اور جس سے آپ سب سے زیادہ نفرت کرتی تھی۔اسی عادی بھائی نے آپ کو اپنا ایک گردہ دیا تھا۔

کک کیا۔؟؟؟میرے منہ سے بےساختہ نکلا۔

مجھے شدید حیرت ہوئی تھی۔بےیقینی سے میں ثمرین کا منہ تکنے لگی۔

مجھے لگا شاید ثمرین جھوٹ بول رہی ہے۔؟

یہ یہ تم کیا کہہ رہی ہو ثمی۔؟؟؟

تت تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔؟؟؟میں اس وقت دکھ حیرت اوربےیقینی کے ملے جلے سے احساس میں ڈوبی ہوئی تھی۔

یہ بات ابو اور میرے سوا کوئی نہیں جانتا۔

ثمرین نے کہا۔عادی بھائی نے ہم دونوں سے وعدہ لیا تھا۔کہ

یہ بات آپ سمعیت کسی کو بھی نہ بتائی جاۓ۔

ثمرین کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔

مجھے لگا جیسے کوئی میرا دل آرے سے کاٹ رہا ہو۔آنکھوں میں آۓ آنسوؤ کی وجہ سے ثمرین کا چہرہ دھندلانے لگا تھا۔

شاید یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے محبت کی بددعا لگی تھی۔

اس بےلوث محبت کی بددعا جس کا میں نے ہمیشہ مذاق اڑایا تھا۔اور

زندگی میں پہلی بار یہ اناپرست لڑکی بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کرروئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پانچ سال گزرچکے ہیں مگر میرے دل کو نہ صبر آیا نہ قرار۔

پچھتاوا مجھے کھاۓجارہاہے۔ان پانچ سالوں میں ان گنت بار میں عادی کی قبر پہ جاکے معافی مانگ چکی ہوں۔مگر

میرے دل کوسکون نہیں ملا۔شاید عادی نے مجھے معاف نہیں کیا۔؟؟؟کیونکہ میں نے جب اس پہ بہتان لگاکے گھرسے نکلوایاتھا۔جاتے ہوۓ اس نے کہاتھا۔کہ

نوشی میں تمہیں کبھی معاف نہیں کرونگا۔

میں جب بھی اس کی قبر پہ جاتی ہوں اس کی پسند کے سرخ گلاب لیکر جاتی ہوں۔میری خواہش ہے کاش وہ بھی میری طرح میرے لاۓ پھول توڑکر پھینکے اور مجھے کہے کہ یہاں سے چلی جاؤ۔

کاش وہ بھی مجھے سب کے سامنے بےعزت کرے۔مجھ سے نفرت کااظہار کرے۔

 میں اف تک نہیں کرونگی۔بس

ایک بار وہ مجھے معاف کردے۔بس ایک بار۔

میں نے سب کی مخالفت کے باوجود منگنی توڑدی تھی۔اور آج تک شادی نہیں کی اور نہ ہی کبھی کرونگی۔اب اندھیرے میرے مقدر ہیں۔روشنی کی دلدادہ لڑکی کواب اندھیرا اچھا لگتا ہے۔

میں جانتی ہوں کہ عادی کی قاتل میں ہی ہوں۔مجھے یاد ہے عادی نے ایک بار ہارٹ اٹیک کی تشریح کی تھی۔

اس نے کہا تھا۔کہ جب کسی انسان کو مسلسل دل پہ زخم لگتے ہیں تو اس کا دل کمزور ہوجاتا ہے۔اور جب مزید قوت نہ رہے تو کوئی ایک بات یا الفاظ دھچکے کی صورت دل پہ لگتی ہے اور دل دھڑکنا بھول جاتا ہے۔لوگ کہتے ہیں اسے ہارٹ اٹیک آگیا۔

وجہ نہ کوئی جانتا ہے اور نہ جاننے کی کوشش کرتا ہے۔

اس نے ٹھیک کہا تھا میرے رویے نے اسے مارا ہے۔اور جب ہسپتال میں اس نے مجھ سے بات کرناچاہی تو میں نے انکار کردیا تھا۔شاید اسی بات نے اس کو ماردیا ہو۔؟؟؟

میں خود کو اس کی قاتل سمجھتی ہوں۔

اور اس کی سزا مجھے بےسکونی تنہائی اور پچھتاوے کی صورت مل رہی۔

ایک اذیت مسلسل ہے جو ختم ہونے کانام ہی نہیں لےرہی۔

عادی نے مجھے کئی بار کہاتھا۔کہ کزن یار کچھ بھی کرو مگر تکبر نہ کیا کرو۔

اللہ سے ڈرو۔تکبر صرف اللہ کی ذات کو ہی جچتا ہے۔کائنات کا سب سے پہلا گناہ تکبر ہی تھا۔جس نے فرشتوں کے سردار کو قیامت تک کے لیے ملعون بنادیا ہے۔

وہ بھی خود کو افضل سمجھ بیٹھا تھا۔

وہ آگ سے بنا تھا اس نے آدم علیہ السلام کو مٹی کا سمجھ کرحقیر جانا اور سجدے سے انکار کردیا۔

عادی نے بلکل ٹھیک کہا تھا۔کاش میں اس وقت اس بات کو سمجھ لیتی اور اسے انسان ہی سمجھتی تو پچھتاوا میرا مقدر نہ ہوتا۔

کاش وہ ایک بار آکر اپنے مخصوص انداز میں کہے،،کزن یار،، کیوں پریشان ہو۔؟؟؟

اور مجھے گ

لے سے لگاکر کہے۔

میں آگیا ہوں سب ٹھیک ہوجاۓ گا۔

اور میں اس کے گلے سے لگ کر اتنا روؤں کہ میرا سانس تھم جاۓ۔

پھر وہ مجھے ہمیشہ کے لیے اپنے ساتھ ہی لےجاۓ۔

عجیب ہی سہی مگر

یہ میری آخری خواہش ہے۔

ختم شد

Post a Comment

0 Comments