- Get link
- X
- Other Apps
- Get link
- X
- Other Apps
ابلیس کی حقیقت
ابلیس اور شیطان ایک ہی صفت اور حقیقت کے دو ایسے نام ہیں کہ جس کا کام اللہ کے بندوں کو ورغلانا،شر پھیلانا اُنہیں اللہ سے باغی کر کے برائی کے کاموں کی جانب راغب کرنا ہے۔یہ انسان کا وہ ازلی دشمن ہے، جو قیامت تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ’’ فرشتے نور سے، آدم مٹّی سے اور ابلیس آگ سے پیدا کیا گیا ۔‘‘حضرت عبداللہ بن عُمرؓ فرماتے ہیں کہ’’ جنّات، حضرت آدمؑ سے دو ہزار سال پہلے سے دنیا میں آباد تھے، جنہوں نے دنیا میں دنگا فساد مچا رکھا تھا، چناں چہ اللہ نے فرشتوں کے ایک لشکر کو دنیا میں روانہ کیا، جنہوں نے ان جنّات کو مار مار کر سمندری جزیروں اور ویران علاقوں میں بھگا دیا۔‘‘ حضرت سعید بن منصورؒ کا قول ہے کہ’’ اس موقعے پر بہت سے جنّات قتل کیے گئے اور کچھ گرفتار بھی ہوئے۔ان ہی میں ابلیس بھی تھا، جو ابھی بچّہ تھا۔ اُسے آسمان پر لا کر رکھا گیا۔یہ فرشتوں کے ساتھ عبادت میں مصروف ہو گیا اور بہت جلد علوم کا ماہر اور عبادت گزار بن گیا۔ چناں چہ اسے آسمانوں میں ’’معلم الملکوت‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’ابلیس آسمانوں میں فرشتوں کا سردار بن گیا تھا۔‘‘حضرت ابنِ عباسؓ نے فرمایا کہ ’’ابلیس کا نام، ’’عزازیل‘‘ تھا۔ ‘‘سورۃ الکہف، آیت 50میں بھی اللہ نے فرمایا کہ ’’ابلیس، جنّات میں سے تھا۔‘‘تفسیر ابنِ جوزی میں حضرت عبداللہ بن عبّاسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا’’ شیطان آدمی کے جسم میں خون کی طرح سرایت کر جاتا ہے۔‘‘ بندے کا دل اس کا خاص ٹھکانا ہے۔ تاہم، شیطان کو اتنی قوّت حاصل نہیں ہے کہ وہ انسان کو راہِ حق سے زبردستی ہٹا دے۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ لوگوں کے دِلوں میں وسوسے اور بُرے خیالات ڈال کر اُنہیں برائی کی طرف راغب کرتا رہتا ہے اور یہی بندوں کا امتحان ہے۔
Comments
Post a Comment