Subscribe Us

شرعی پردہ دراصل کیا ہے؟


 اسلام میں پردے کی اہمیت اور شرعی حکم 


شرعی پردہ دراصل دو پردوں پر مشتمل ہے۔ 

ایک ہے گھر کے اندر کا پردہ جس کے بارے میں احکامات سورةالنور میں بیان ہوئے ہیں۔ ان احکامات کو ” احکاماتِ ستر “ کہا جاتا ہے۔

 دوسرا ہے گھر کے باہر کا پردہ جس کے بارے میں احکامات سورةالاحزا ب میں وارد ہوئے ہیں اور یہ احکامات” احکاماتِ حجاب “ کہلاتے ہیں۔ ستر و حجاب میں فرق پردے کے حوالے سے اکثر لوگ ستر اور حجاب میں کوئی فرق نہیں کرتے حالانکہ شریعتِ اسلامیہ میں ان دونوں کے احکامات الگ الگ ہیں۔ 

سترجسم کا وہ حصہ ہے جس کا ہر حال میں دوسروں سے چھپا نا فرض ہے ماسوائے زوجین کے یعنی خاوند اور بیوی اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ مرد کا ستر ناف سے لے کر گھٹنوں تک ہے اور عورت کا ستر ہاتھ پاؤں اور چہرے کی ٹکیہ کے علاوہ پورا جسم ہے۔ 

ایک دوسری روا یت کے مطابق عورت کا سارا جسم ستر ہے سوائے چہرے اور ہاتھ کے۔ البتہ عورت کے لئے عورت کا ستر ناف سے لے کر گھٹنوں تک ہے۔ معمول کے حالات میں ایک عورت ستر کا کوئی بھی حصہ اپنے شوہر کے سوا کسی اور کے سامنے نہیں کھول سکتی۔ ستر کا یہ پردہ ان افراد سے ہے جن کو شریعت نے ” محرم “ قرار دیا ہے۔ ان محرم ا فراد کی فہرست سورة النور آیت ۳۱ میں موجود ہے۔ ستر کے تمام احکامات سورة النور میں بیان ہوئے ہیں جن کی تفصیلات احادیث نبوی میں مل جاتی ہیں۔ گھر کے اندر عورت کے لئے پردے کی یہی صورت ہے۔ 


حجاب عورت کا وہ پردہ ہے جسے گھر سے باہر کسی ضرورت کے لئے نکلتے وقت اختیار کیا جاتا ہے۔ اس صورت میں شریعت کے وہ احکامات ہیں جو اجنبی مردوں سے عورت کے پردے سے متعلق ہیں۔ حجاب کے یہ احکامات سورة الا حزاب میں بیان ہوئے ہیں۔ ان کا مفہوم یہ ہے کہ گھر سے باہر نکلتے وقت عورت جلباب یعنی بڑی چادر (یا برقع) اوڑھے گی تاکہ اس کا پورا جسم ڈھک جائے اور چہرے پر بھی نقاب ڈالے گی تاکہ سوائے آنکھ کے چہرہ بھی چھپ جائے۔ گویا حجاب یہ ہے کہ عورت سوائے آنکھ کے باقی پورا جسم چھپائے گی۔ 


گھر کے اندر کا پردہ --- 

” احکاماتِ ستر “ 

1 - کسی کے گھر میں داخل ہوتے وقت اجازت طلب کی جائے 


ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ” اے ایمان والو دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہو جب تک اپنی پہچان نہ کرالو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج دو یہ ہی تمہارے لئے بہتر ہے شاید کہ تم یاد رکھو “(سورة النور آیت ۲۷) 


اس آ یت میں ہدایت کی گئی ہے کہ اچانک اور بلا اطلاع کسی کے گھر میں داخل نہ ہوجایا کرو۔ اسلام سے پہلے عرب میں رواج تھا کہ لوگ بے تکلف دوسروں کے گھر میں داخل ہو جاتے اور بسا اوقات اہلِ خانہ اور خواتین کو ایسی حالت میں دیکھ لیتے جس میں دیکھنا خلافِ تہذیب ہے۔ اس لئے حکم دیا گیا کہ لوگوں کے گھروں میں نہ داخل ہو جب تک یہ معلوم نہ کر لو کہ تمہارا آنا صاحبِ خانہ کے لئے ناگوار تو نہیں ہے۔ داخل ہونے سے پہلے سلام کرکے اجازت لے لیا کرو۔ اجازت لینے کے لئے مسنون طریقہ یہ ہے کہ تین مرتبہ مناسب وقفوں سے باآوازِ بلند سلام کیا جائے یا دستک دی جائے۔ اگر جواب نہ ملے یا کہاجائے کہ چلے جاؤ تو دروازے پر جم جانا درست نہیں ہے بلکہ برا مانے بغیر لوٹ جانا چاہیئے۔ 


اسی طرح اس سورة کی آیت ۵۸ میں حکم ہے کہ نمازِ فجر سے قبل ‘ نمازِ ظہر کے بعد اور نمازِ عشاء کے بعد یعنی ایسے اوقات میں جب عام طور پر شوہر اور بیوی خلوت میں ہوتے ہیں ‘ ملازم اور بچے وغیرہ بلا اجازت کمروں میں داخل نہ ہوا کریں۔ 

ان امور کی مزید وضاحت حسبِ ذیل احادیث مبار کہ میں بیان کی گئی ہے : 


۱ - نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کا اپنا قاعدہ یہ تھا کہ جب کسی کے ہاں تشریف لے جاتے تو دروازے کے عین سامنے کھڑے نہ ہوتے کیوں کہ اس زمانے میں دروازوں پر پردے نہ لٹکائے جاتے تھے۔ آپ دروازے کے بائیں یا دائیں جانب کھڑے ہو کر اجازت طلب فرمایا کرتے۔ ( ابوداود) 

(فقھاءنے نابینا کے لئے بھی اجازت مانگنا لازم قرار دیا ہے تاکہ گھر والوں کی باتیں سننے کا احتمال نہ ہو) 


۲ - اجازت لینے کے لئے نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ پکارنے کی حد مقرر کی اور فرمایا اگر تیسری بار پکارنے پر بھی جواب نہ آئے تو واپس ہو جاؤ. (متفق علیہ) 


۳ - حضرت ھزیل بن شرحبیل کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے ہاں حاضر ہوا اور عین دروازے پر کھڑے ہو کر اجازت مانگنے لگا۔ نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا کہ تیرا یہ کیا معاملہ ہے اجاز ت مانگنے کا حکم تو ا س لئے ہے کہ نگاہ نہ پڑے۔ (ابوداود) 


۴ - حضرت ثوبان کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا کہ جب نگاہ داخل ہو گئی تو پھر خود داخل ہونے کے لئے اجازت مانگنے کا کیا موقع رہا۔ ( ابوداود) 


۵ - ایک شخص نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے ہاں آیا اور دروازے پر آکر کہا.. کیا میں گھس آؤں؟   نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے اپنی لونڈی روضہ سے فرمایا کہ یہ شخص اجازت مانگنے کا طریقہ نہیں جانتا ذرا اٹھ کر اسے بتاؤ کہ یوں کہنا چاہیے السلام علیکم !  کیا میں داخل ہو جاؤں؟ ( ابوداود) 


۶ - حضرت کلدہ بن حنبل ایک کام سے نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے ہاں گئے اور سلام کیے بغیر یوں ہی جا بیٹھے۔ آپ صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا باہرجاؤ اور السلام علیکم کہہ کر اندر آؤ۔ ( ابوداود) 


۷ - حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے ہاں گیا اور دروازے پر دستک دی۔ آپ صلی الله علیه وآله وسلم نے پوچھا کون ہے؟   میں نے عرض کیا کہ ”میں ہوں“  آپ صلی الله علیه وآله وسلم نے دو تین مر تبہ فرمایا ”میں ہوں ! میں ہوں !“ یعنی اس ”میں ہوں“ سے کوئی کیا سمجھے کہ تم کون ہو۔ (ابوداود) 


اجازت لینے کا حکم ا پنے گھر کی صورت میں بھی ہے 


۱ - ایک شخص نے نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم سے پوچھا کہ کیا میں اپنی ماں کے پاس جاتے وقت بھی اجازت طلب کروں؟ آپ صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔  اس نے کہا میرے سوا ان کی خدمت کرنے والا کوئی نہیں ہے ، کیا ہر بار جب میں ان کے پاس جاؤں تو اجازت مانگوں ؟   فرمایا کہ کیا تو پسند کرتا ہے کہ اپنی ماں کوعریاں دیکھے؟ (ابن جریر) 


۲ - حضرت عبداللہ بن مسعود کا قول ہے کہ ”اپنی ماں بہنوں کے پاس بھی جاؤ تو اجازت لے کر جاو“۔ ان کی بیوی حضرت زینب سے روا یت ہے کہ جب وہ گھر پر آتے تو ایسی آواز کرتے جس سے ان کی آمد کاعلم ہو جاتا۔ (ا بن کثیر) 


2 - نگاہ نیچی رکھنا


سورة النور آیت۳۰ میں فرمایاگیا: ” اے نبی  (صلی الله علیه وآله وسلم) ! مومن مردوں سے فرما دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اوراپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں “۔ 


اسی سورة کی آیت۳۱ میں ارشاد ہوتا ہے : َّ” اے نبی (صلی الله علیه وآله وسلم) ! مومن عورتوں سے فرما دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں“۔ 


نگاہوں کی حفاظت کا حکم گھرسے باہر کے لئے ھی ہے تاکہ نامحرموں پر نگاہ نہ پڑے. 

بلاشبہ محرم خواتین کے ساتھ ایک تقدس کا رشتہ ہے لیکن بہر حال بحیثیت جنسِ مخالف ہونے کے، مرد اور عورت میں ایک دوسرے کے لئے کشش ہے اور گھر کے اندر بھی نگاہوں کی بے احتیاطی فتنہ کا سبب بن سکتی ہے۔ 


حقیقت یہ ہے کہ بدنظری ہی بدکاری کے راستے کی پہلی سیڑھی ہے۔ اسی وجہ سے اس آیت میں نظروں کی حفاظت کے حکم کو مقدم رکھا گیا ہے۔ 


روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک نابینا صحابی حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی الله عنه ، نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے حجرہ مبارک میں تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی الله عنھا اور ام سلمہ رضی الله عنھا سے آپ صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا : ” ان سے پردہ کرو “ ! وہ کہنے لگیں : ” کیایہ نابینا نہیں ہیں “ ؟ آپ نے فرمایا ” مگر تم تو نابینا نہیں ہو“۔ 


ہمارے معاملات آج اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ہم نے نوجوان لڑکیوں کو مخلوط تعلیمی اداروں ، دفاتر اور دیگر محافل میں غیر محرموں کے ساتھ آزادانہ میل جول کی اجازت دے رکھی ہے۔ 


بعض والدین کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی بچی پر اعتماد ہے۔ کیا نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کو (نعوذ باللہ) حضرت عائشہ رضی الله عنھا پر اعتماد نہیں تھا جن کی پاکیزگی کی گواہی خود الله رب العزت نے سورة النور کے دوسرے رکوع میں دی ہے۔ 


بد نظری کے نتیجے میں شیطان آنکھ کے راستے سے دل میں اتر جاتا ہے پھر دونوں فریق ہم کلام ہوتے ہیں اور یوں بات آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ نگاہوں کی حفاظت سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے چہرے کو نہ دیکھیں بلکہ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ دوسروں کے ستر پر نگاہ نہ ڈالی جائے اور نہ ہی کسی قسم کے فحش مناظر یا تصاویر کو دیکھا جائے۔ 

اس حوالے سے مندرجہ ذیل احادیث سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے : 


۱ - نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا” اے علی (رضی الله عنه) ! ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالنا۔ پہلی نگاہ (جو بلا ارادہ پڑ گئی) معاف ہے مگر دوسری نہیں “۔ 

(مسندِ احمد ۔ ترمذی) 


۲ - حضرت جریر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم سے پوچھا ” اچانک نگاہ پڑ جائے تو کیا کروں۔ فرمایا فوراً نگاہ پھیر لو یا نیچی کر لو“۔ 

(مسلم ، ترمذی ، ابوداود، نسائی) 


۳ - ” جس مسلمان کی نگاہ کسی عورت کے حسن پر پڑے اور وہ نگاہ ہٹالے تو اللہ اس کی عبادت میں لطف اور لذت پیدا کردیتا ہے “۔ 

(مسند احمد) 


۴ - ” اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ جو شخص مجھ سے ڈر کر اس کی حفاظت کرے گا میں اس کے بدلے ایسا ایمان دوں گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا۔ (طبرانی) 


نوٹ : کسی اجنبی عورت کو دیکھنے کی بعض صورتوں میں اجازت ہے مثلًا : اگر ایک شخص کسی عورت سے نکاح کرنا چاہے تو اسے اجازت ہے کہ چوری چھپے اس پر ایک نظر ڈال سکتا ہے۔ 


حضرت مغیرہ بن شعبہ نے ایک جگہ نکاح کا پیغام بھجوایا۔ رسول اللہ صلی الله علیه وآله وسلم نے پوچھا کہ تم نے لڑکی کو دیکھا ہے؟   انہوں نے عرض کیا نہیں۔ فرمایا اسے دیکھ لواس طرح زیادہ توقع کی جاسکتی ہے کہ تمہارے درمیان موافقت ہوگی۔

Post a Comment

0 Comments