Subscribe Us

بزنس مارکیٹنگ کیسے کی جاتی ہے

< p> اُمید زندگی کی علامت ہے۔

 اُمید سے انسان کا واسطہ پہلی سانس سے ہی شروع ہو جاتا ہے اور اُس کے بعد ساری زندگی انسان اچھے انجام کی امید لیے ہرکام کرتاہے۔ دنیا کا ہر انسان خواہ وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو جیسے کسان، زمیندار، مزدور سب اچھے انجام کی اُمید لیے ہی کام کرتے ہیں۔ لیکن زندگی میں جہاں اُمید ہے وہاں ناامیدی بھی اِس کا حصہ ہے۔ بعض اوقات حالات اتنے ناساز گار ہوجاتے ہیں کہ امید کا چراغ بجھ بھی جاتا ہے اورناامیدی شروع ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات انسان محسوس کرتا ہے کہ وہ سب کچھ کر سکتا ہے اور بعض اوقات اسے ایسے بھی لگتا ہے جیسے وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ ماہرین ِنفسیا ت کے مطابق انسان کو ایک دن میں سترہ قسم کے مزاج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان میں کچھ ایسے مزاج ہوتے ہیں جن سے امید پیدا ہوتی ہے اور کچھ سے ناامیدی پیدا ہوجا تی ہے۔ 





انسان کا انسان سے امید لگانا فطرتی عمل ہے۔ ایک شخص کے رابطے میں جتنے لوگ ہوتے ہیں چاہتے نہ چاہتے وہ ان سے امیدیں لگا لیتا ہے‘ پھر ایسا ہوتا ہے کہ وہ امیدیں پوری نہیں ہوتیں۔ جب کسی انسان کی دوسروں سے لگائی ہوئی امیدیں پوری نہ ہوں تووہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ جب امید ٹوٹتی ہے تب سمجھ آتی ہے کہ امید انسان سے نہیں بلکہ اس پاک ذات سے لگانی چاہیے جس نے پیدا کیا ہے۔ جہاں ایک طرف انسان کی انسان سے لگائی ہوئی امیدیں پوری نہیں ہو تیں اور وہ مایوس ہوتا ہے، وہیں پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری رحمت سے ناامید نہ ہونا، اور رحمت کا مطلب حق نہ ہونے کے باوجود بھی حق سے زیادہ ملنا ہے، اگر حق ملے تو یہ انصاف ہے اور حق سے زیادہ ملے تورحمت ہے، اور اسی کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ سے اُمید لگائیں، اُس کی رحمت کا انتظار کریں اورر اچھا گمان رکھیں۔

Post a Comment

0 Comments